📚Darse Bahare Shariat
🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀
📚Darse Bahare Shariat
📗Part: 1
📖Page: 1
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
فقیر بارگاہ قادری ابوالعلا امجد علی اعظمی رضوی عرض کرتا ہے کہ زمانہ کی حالت نے اس طرف متوجہ کیا کہ عوام بھائیوں کے لیے صحیح مسائل کا ایک سلسلہ عام فہم زبان میں لکھا جائے، جس میں ضروری روز مرّہ کے مسائل ہوں۔ باوجود بے فرصتی اور بے مایگی کے توکّلاً علی اللہ اس کا م کو شروع کیا، ایک حصّہ لکھنے پایا تھا کہ یہ خیال ہوا کہ اعمال کی درستی عقائد کی صحت پر متفرع ہے، اور بہتیرے مسلمان ایسے ہیں کہ اُصولِ مذہب سے آگاہ نہیں، ایسوں کے لیے سچّے عقائدِ ضروری کے سرمایہ کی بہت شدید حاجت ہے۔ خصوصاً اس پُر آشوب زمانہ میں کہ گندم نما جَو فروش بکثرت ہیں، کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے، بلکہ عالم کھلاتے ہیں اور حقیقۃً اسلام سے ان کو کچھ علاقہ نہیں۔ عام نا واقف مسلمان اُن کے دامِ تزویر میں آکر مذہب اور دین سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، لہٰذا اُس حصہ یعنی کتابُ الطہارۃ کو اِس سلسلہ کا حصّہ دوم کیا اور اُن بھائیوں کے لیے اس سے پہلے حصّہ میں اسلامی سچے عقائد بیان کیے۔ اُمید کہ برادرانِ اسلام اس کتاب کے مطالعہ سے ایمان تازہ کریں اور اس فقیر کے لیے عفو و عافیتِدارین اور ایمان ومذہب ِاھلسنت پر خاتمہ کی دعا فرمائیں۔
📚Darse Bahare Shariat
📗Part: 1
📖Page: 1
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
فقیر بارگاہ قادری ابوالعلا امجد علی اعظمی رضوی عرض کرتا ہے کہ زمانہ کی حالت نے اس طرف متوجہ کیا کہ عوام بھائیوں کے لیے صحیح مسائل کا ایک سلسلہ عام فہم زبان میں لکھا جائے، جس میں ضروری روز مرّہ کے مسائل ہوں۔ باوجود بے فرصتی اور بے مایگی کے توکّلاً علی اللہ اس کا م کو شروع کیا، ایک حصّہ لکھنے پایا تھا کہ یہ خیال ہوا کہ اعمال کی درستی عقائد کی صحت پر متفرع ہے، اور بہتیرے مسلمان ایسے ہیں کہ اُصولِ مذہب سے آگاہ نہیں، ایسوں کے لیے سچّے عقائدِ ضروری کے سرمایہ کی بہت شدید حاجت ہے۔ خصوصاً اس پُر آشوب زمانہ میں کہ گندم نما جَو فروش بکثرت ہیں، کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے، بلکہ عالم کھلاتے ہیں اور حقیقۃً اسلام سے ان کو کچھ علاقہ نہیں۔ عام نا واقف مسلمان اُن کے دامِ تزویر میں آکر مذہب اور دین سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، لہٰذا اُس حصہ یعنی کتابُ الطہارۃ کو اِس سلسلہ کا حصّہ دوم کیا اور اُن بھائیوں کے لیے اس سے پہلے حصّہ میں اسلامی سچے عقائد بیان کیے۔ اُمید کہ برادرانِ اسلام اس کتاب کے مطالعہ سے ایمان تازہ کریں اور اس فقیر کے لیے عفو و عافیتِدارین اور ایمان ومذہب ِاھلسنت پر خاتمہ کی دعا فرمائیں۔
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 2
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
عقا ئد متعلقہ ذات و صفاتِ الٰہی جَلّ جلا لہ،
عقیدہ (۱): اﷲ (عزوجل) ایک ہے (1)، کوئی اس کا شریک نہیں(2)، نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں(3) نہ احکام میں(4)، نہ اسماء میں (5)، واجب الوجود ہے(6)، یعنی اس کا وجود ضروری ہے اور عَدَم مُحَال(7)، قدیم ہے (8)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ (قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ) پ۳۰، الإخلاص: ۱. (وَإِلٰہُکُمْ إِلٰـہٌ وَاحِدٌ لَا إِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ) پ۲، البقرۃ: ۱۶۳. 2۔۔۔۔۔۔ (لاَ شَرِیْکَ لَہٗ) پ۸، الأنعام: ۱۶۳.3۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر'' في ''شرح الفقہ الأکبر'' للقاریئ، ص۱۴: (واللہ تعالی واحد) أي: في ذاتہ (لا من طریق العدد) أي: حتی لا یتوہم أن یکون بعدہ أحد (ولکن من طریق أنّہ لا شریک لہ) أي: في نعتہ السرمديّ لا في ذاتہ ولا في صفاتہ). وفي ''حاشیۃ الصاوي''، پ۳۰، الإخلاص، تحت الآیۃ ۱: (والتنزہ عن الشبیہ والنظیر والمثیل في الذات والصفات والأفعال)، ج۶، ص۲۴۵۱. وانظر للتفصیل رسالۃ الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن: ''اعتقاد الأحباب في الجمیل والمصطفی والآل والأصحاب'' المعروف بہ ''دس عقیدے''، ج۲۹، ص۳۳۹۔4۔۔۔۔۔۔ (وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا) پ۱۵، الکہف: ۲۶. في ''تفسیر الطبري''، ج۸، ص۲۱۲، تحت الآیۃ: (یقول: ولا یجعل اللہ في قضائہ، وحکمہ في خلقہ أحداً سواہ شریکاً، بل ہو المنفرد بالحکم والقضاء فیہم، وتدبیرہم وتصریفہم فیما شاء وأحبّ)۔5۔۔۔۔۔۔ (ہَلْ تَعْلَمُ لَـہ، سَمِیًّا) پ۱۶، مریم: ۶۵، في ''التفسیر الکبیر'' تحت الآیۃ: (المراد أنّہ سبحانہ لیس لہ شریک في اسمہ).6۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر'' في ''شرح الفقہ الأکبر'' للقاریئ، ص۱۵: (لایشبہ شیأاً من الأشیاء من خلقہ) أي: مخلوقاتہ، وھذا لأنّہ تعالی واجب الوجود لذاتہ وماسواہ ممکن الوجود في حد ذاتہ، فواجب الوجود ہوالصمد الغنيّ الذي لایفتقر إلی شيئ، ویحتاج کل ممکن إلیہ في إیجادہ وإمدادہ، قال اللہ تعالی: (وَاللہُ الْغَنِیُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاء ُ).7۔۔۔۔۔۔ یعنی اُس کا موجودنہ ہونا، نا ممکن ہے۔ 8۔۔۔۔۔۔ في ''المعتقد المنتقد''، ص۱۸: (ومنہ أنّہ قدیم، لا أوّل لہ۔أي: لم یسبق وجودہ عدم۔ ولیس تحت لفظ القدیم معنی في حقّ اللہ تعالی سوی إثبات وجود، ونفي عدم سابق۔ فلا تظنن أنّ القدم معنی زائد علی الذات القدیمۃ، فیلزمک أن تقول إنّ ذلک المعنی أیضاً قدیم بقدم زائد علیہ ویتسلسل إلی غیر نہایۃ۔ ومعنی القدم في حقہ تعالی۔ أي: امتناع سبق العدم علیہ۔ ہو معنی کونہ أزلیا، ولیس بمعنی تطاول الزمان، فإنّ ذلک وصف للمحدثات کما في قولہ تعالی: (کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیمِ).🔚
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 2
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
عقا ئد متعلقہ ذات و صفاتِ الٰہی جَلّ جلا لہ،
عقیدہ (۱): اﷲ (عزوجل) ایک ہے (1)، کوئی اس کا شریک نہیں(2)، نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں(3) نہ احکام میں(4)، نہ اسماء میں (5)، واجب الوجود ہے(6)، یعنی اس کا وجود ضروری ہے اور عَدَم مُحَال(7)، قدیم ہے (8)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ (قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ) پ۳۰، الإخلاص: ۱. (وَإِلٰہُکُمْ إِلٰـہٌ وَاحِدٌ لَا إِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ) پ۲، البقرۃ: ۱۶۳. 2۔۔۔۔۔۔ (لاَ شَرِیْکَ لَہٗ) پ۸، الأنعام: ۱۶۳.3۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر'' في ''شرح الفقہ الأکبر'' للقاریئ، ص۱۴: (واللہ تعالی واحد) أي: في ذاتہ (لا من طریق العدد) أي: حتی لا یتوہم أن یکون بعدہ أحد (ولکن من طریق أنّہ لا شریک لہ) أي: في نعتہ السرمديّ لا في ذاتہ ولا في صفاتہ). وفي ''حاشیۃ الصاوي''، پ۳۰، الإخلاص، تحت الآیۃ ۱: (والتنزہ عن الشبیہ والنظیر والمثیل في الذات والصفات والأفعال)، ج۶، ص۲۴۵۱. وانظر للتفصیل رسالۃ الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن: ''اعتقاد الأحباب في الجمیل والمصطفی والآل والأصحاب'' المعروف بہ ''دس عقیدے''، ج۲۹، ص۳۳۹۔4۔۔۔۔۔۔ (وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا) پ۱۵، الکہف: ۲۶. في ''تفسیر الطبري''، ج۸، ص۲۱۲، تحت الآیۃ: (یقول: ولا یجعل اللہ في قضائہ، وحکمہ في خلقہ أحداً سواہ شریکاً، بل ہو المنفرد بالحکم والقضاء فیہم، وتدبیرہم وتصریفہم فیما شاء وأحبّ)۔5۔۔۔۔۔۔ (ہَلْ تَعْلَمُ لَـہ، سَمِیًّا) پ۱۶، مریم: ۶۵، في ''التفسیر الکبیر'' تحت الآیۃ: (المراد أنّہ سبحانہ لیس لہ شریک في اسمہ).6۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر'' في ''شرح الفقہ الأکبر'' للقاریئ، ص۱۵: (لایشبہ شیأاً من الأشیاء من خلقہ) أي: مخلوقاتہ، وھذا لأنّہ تعالی واجب الوجود لذاتہ وماسواہ ممکن الوجود في حد ذاتہ، فواجب الوجود ہوالصمد الغنيّ الذي لایفتقر إلی شيئ، ویحتاج کل ممکن إلیہ في إیجادہ وإمدادہ، قال اللہ تعالی: (وَاللہُ الْغَنِیُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاء ُ).7۔۔۔۔۔۔ یعنی اُس کا موجودنہ ہونا، نا ممکن ہے۔ 8۔۔۔۔۔۔ في ''المعتقد المنتقد''، ص۱۸: (ومنہ أنّہ قدیم، لا أوّل لہ۔أي: لم یسبق وجودہ عدم۔ ولیس تحت لفظ القدیم معنی في حقّ اللہ تعالی سوی إثبات وجود، ونفي عدم سابق۔ فلا تظنن أنّ القدم معنی زائد علی الذات القدیمۃ، فیلزمک أن تقول إنّ ذلک المعنی أیضاً قدیم بقدم زائد علیہ ویتسلسل إلی غیر نہایۃ۔ ومعنی القدم في حقہ تعالی۔ أي: امتناع سبق العدم علیہ۔ ہو معنی کونہ أزلیا، ولیس بمعنی تطاول الزمان، فإنّ ذلک وصف للمحدثات کما في قولہ تعالی: (کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیمِ).🔚
🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 3
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
یعنی ہمیشہ سے ہے، اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں، باقی ہے(1) یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔(2) عقیدہ (۲): وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔(3) عقیدہ (۳): اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال(4) کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے(5) اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا(6) ، البتہ اُس کے افعال کے ذریعہ سے اِجمالاً اُس کی صفات، پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ ( کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہ،) پ۲۰، القصص: ۸۸.وفي''المعتقد المنتقد''، و منہ أنّہ باق، لیس لوجودہ آخر۔ أي: یستحیل أن یلحقہ عدم۔ وہو معنی کونہ أبدیا). انظر للتفصیل: ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، الأصل الثاني والثالث، تحت قولہ: (أنّہ تعالی قدیم لا أوّل لہ، وأنّ اللہ تعالی أبدي لیس لوجودہ آخر)، ص۲۲۔ ۲۴. 2۔۔۔۔۔۔ (یَا أَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ) پ۱، البقرۃ: ۲۱. (ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ لَا إِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ) پ۷، الأنعام: ۱۰۲. (وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ) پ۱۵، بني اسرآئیل: ۲۳. (أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ) پ۱۲، یوسف: ۴۰.3۔۔۔۔۔۔ (اَللہُ الصَّمَدُ) پ۳۰، الإخلاص: ۲. وفي ''منح الروض الأزہر'' في ''شرح الفقہ الأکبر''، ص۱۴: (اَللہُ الصَّمَدُ) أي: المستغنيعن کل أحد والمحتاج إلیہ کل أحد.4۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کی ذات کا عقل کے ذریعے اِحاطہ نہیں کیا جا سکتا۔5۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کا اِحاطہ کیے ہوئے ہوتی ہے۔6۔۔۔۔۔۔ في''التفسیر الکبیر''، پ۷، الأنعام، تحت الآیۃ : ۱۰۳: (لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ) المرئي إذا کان لہ حد ونھایۃ وأدرکہ البصر بجمیع حدودہ وجوانبہ ونھایاتہ، صارکأنّ ذلک الأبصار أحاط بہ فتسمی ہذہ الرؤیۃ إدراکاً، أما إذا لم یحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤیۃ إدراکاً. فالحاصل: أنّ الرؤیۃ جنس تحتہا نوعان: رؤیۃ مع الإحاطۃ، ورؤیۃ لا مع الإحاطۃ، والرؤیۃ مع الإحاطۃ ہي المسماۃ بالإدراک فنفي الإدراک یفید نفي نوع واحد من نوعي الرؤیۃ، ونفي النوع لا یوجب نفي الجنس، فلم یلزم من نفي الإدراک عن اللہ تعالی نفي الرؤیۃ عن اللہ تعالی)، ج۵، ص۱۰۰.🔚
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 4 . 5
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
عقیدہ (۴):الّٰله (عزوجل) کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر(1)، یعنی صفات اُسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اُس سے کسی طرح کسی نحوِ وجود میں جدا ہوسکیں (2) کہ نفسِ ذات کی مقتضٰی ہیں اور عینِ ذات کو لازم۔ (3) عقیدہ (۵): جس طرح اُس کی ذات قدیم اَزلی اَبدی ہے، صفات بھی قدیم اَزلی اَبَدی ہیں۔ (4) عقیدہ (۶): اُس کی صفات نہ مخلوق ہیں (5) نہ زیرِ قدرت داخل۔ عقیدہ (۷): ذات و صفات کے سِوا سب چیزیں حادث ہیں، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں۔ (6) عقیدہ (۸): صفاتِ الٰہی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے، گمراہ بد دین ہے۔ (7)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ في''المسایرۃ''، ص۳۹۲: (لیست صفاتہ من قبیل الأعراض ولا عینہ ولا غیرہ) . وفي ''شرح العقائد النسفیۃ''، ص۴۷۔۴۸: (وہي لا ہو ولا غیرہ، یعني: أنّ صفات اللہ تعالی لیست عین الذات ولا غیر الذات۔۔۔۔۔۔الخ).2۔۔۔۔۔۔ یعنی کسی بھی طور پر صفات، ذات سے جدا ہو کر نہیں پائی جا سکتیں۔ 3۔۔۔۔۔۔ بلا تشبیہ اس کو یوں سمجھیں کہ پھول کی خوشبو پھول کی صفت ہے جو پھول کے ساتھ ہی پائی جاتی ہے، مگر اس خوشبو کو ہم پھول نہیں کہتے، اور نہ ہی اُسے پھول سے جدا کہہ سکتے ہیں۔ 4۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر'' للقاریئ، ص۲۳: (لم یحدث لہ اسم ولا صفۃ) یعني:أنّ صفات اللہ وأسمائہ کلہا أزلیۃ لا بدایۃ لہا، وأبدیۃ لا نہایۃ لہا، لم یتجدد لہ تعالی صفۃ من صفاتہ ولا اسم من أسمائہ، لأنّہ سبحانہ واجب الوجود لذاتہ الکامل في ذاتہ وصفاتہ، فلوحدث لہ صفۃ أو زال عنہ نعت لکان قبل حدوث تلک الصفۃ وبعد زوال ذلک النعت ناقصا عن مقام الکمال، و ہو في حقہ سبحانہ من المحال، فصفاتہ تعالی کلہا أزلیۃ أبدیۃ). وفي ''المعتمد المستند''، ص۴۶۔۴۷: (وبالجملۃ: فالذي نعتقدہ في دین اللہ تعالی أنّ لہ عزوجل صفات أزلیۃ قدیمۃ قائمۃ بذاتہ عزوجل، لوازم لنفس ذاتہ تعالٰی، ومقتضَیات لہا بحیث لا تقدیر للذات بدونھا۔۔۔۔۔۔إلخ).5۔۔۔۔۔۔ في ''الفقہ الأکبر''، ص۲۵: (صفاتہ في الأزل غیر محدثۃ ولا مخلوقۃ). ''المعتقد المنتقد''، ص۴۹. 6۔۔۔۔۔۔ وفي ''شرح العقائد النسفیۃ''، ص۲۴: (والعالم) أي: ما سوی اللہ تعالی من الموجودات مما یعلم بہ الصانع یقال عالم الأجسام وعالم الأعراض وعالم النباتات وعالم الحیوان إلی غیر ذلک، فتخرج صفات اللہ تعالی؛ لأنّھا لیست غیر الذات کما أنّہا لیست عینھا (بجمیع أجزائہ) من السموات وما فیھا والأرض وما علیہا (محدث).7۔۔۔۔۔۔ في ''المعتقد المنتقد''، ص۴۹: (صفات اللہ تعالی في الأزل غیر محدثۃ ولا مخلوقۃ، فمن قال: إنّہا مخلوقۃ أو محدثۃ، أو وقف فیہا بأن لا یحکم بأنہا قدیمۃ أوحادثۃ، أوشک فیہا، أو تردد في ہذہ المسألۃ ونحوہا فہوکافر باللہ تعالی). =
عقیدہ (۹): جو عالَم میں سے کسی شے کو قدیم مانے یا اس کے حدوث میں شک کرے، کافر ہے۔ (1) عقیدہ (۱۰): نہ الّٰله (عزوجل) کسی کا باپ ہے، نہ بیٹا، نہ اُس کے لیے بی بی، جو اُسے باپ یا بیٹا بتائے یا اُس کے لیے بی بی ثابت کرے کافر ہے (2)، بلکہ جو ممکن بھی کہے گمراہ بد دین ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ= قال الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن في حاشیتہ، ص۵۰: تحت قولہ: ''فہو کافر'': (ھذا نص سیدنا الإمام الأعظم رضي اللہ تعالی عنہ في ''الفقہ الأکبر'' وقد تواتر عن الصحابۃ الکرام والتابعین والمجتہدین الأعلام علیہم الرضوان التام إکفار القائل بخلق الکلام کما نقلنا نصوص کثیر منھم في ''سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح'' وہم القدوۃ للفقہاء الکرام في إکفار کل من أنکر قطعیاً، والمتکلمون خصّوہ بالضروري وہو الأحوط. ۱۲ وفي ''منح الروض الأزہر''، ص۲۵، تحت قولہ: (فہوکافر باللہ) أي: ببعض صفاتہ، وہو مکلف بأن یکون عارفاً بذاتہ وجمیع صفاتہ إلاّ أن الجھل والشک الموجبین للکفر مخصوصان بصفات اللہ المذکورۃ من النعوت المسطورۃ المشہورۃ، أعني: الحیاۃ والقدرۃ والعلم والکلام والسمع والبصر والإرادۃ والتخلیق والترزیق.1۔۔۔۔۔۔ في ''الشفا''، فصل في بیان ما ہو من المقالات کفر، ج۲، ص۲۸۳: (نقطع علی کفر من قال بقدم العالم، أو بقائہ، أو شک في ذلک). و''المعتقد المنتقد، ص۱۹.2۔۔۔۔۔۔ ( لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ) پ۳۰، الإخلاص:۳. (مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًا) پ۲۹، الجن : ۳. (وَمَا یَنْبَغِی لِلرَّحْمٰنِ أَنْ یَتَّخِذَ وَلَدًا) پ۱۶، مریم: ۹۲. 🔚
🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 6 . 7
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
عقیدہ (۱۱): الّٰله (عزوجل) حَی ہے، یعنی خود زندہ ہے اور سب کی زندگی اُس کے ہاتھ میں ہے، جسے جب چاہے زندہ کرے اور جب چاہے موت دے۔ (1) عقیدہ (۱۲): وہ ہر ممکن پر قادر ہے، کوئی ممکن اُس کی قدرت سے باہر نہیں۔ (2) عقیدہ (۱۳): جو چیز مُحال ہے، اﷲ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اُس کی قدرت اُسے شامل ہو، کہ مُحال اسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہوسکے اور جب مقدور ہوگا تو موجود ہوسکے گا، پھر مُحال نہ رہا۔ اسے یوں سمجھو کہ دوسرا خدا مُحال ہے یعنی نہیں ہوسکتا تو یہ اگر زیرِ قدرت ہو تو موجود ہوسکے گا تو مُحال نہ رہا اور اس کو مُحال نہ ماننا وحدانیت کا انکار ہے۔ یوہیں فنائے باری مُحال ہے، اگر تحتِ قدرت ہو تو ممکن ہوگی اور جس کی فنا ممکن ہو وہ خدا نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ مُحال پر قدرت ماننا اﷲ (عزوجل) کی اُلوہیت سے ہی انکار کرنا ہے۔ (3) عقیدہ (۱۴): ہر مقدور کے لیے ضرور نہیں کہ موجود ہو جائے، البتہ ممکن ہونا ضروری ہے اگرچہ کبھی موجود نہ ہو۔ عقیدہ (۱۵): وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر اُ س چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے، یعنی عیب ونقصان کا اُس میں ہونا مُحال ہے، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو، نہ نقصان، وہ بھی اُس کے لیے مُحال، مثلاً جھوٹ، دغا، خیانت، ظلم، جھل، بے حیائی وغیرہا عیوب اُس پرقطعاً محال ہیں اوریہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھو ٹ بول سکتا ہے، مُحال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور یہ سمجھنا کہ مُحا لات پر قادر نہ ہو گا تو قدرت ناقص ہو جائے گی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ (ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ) پ۳، البقرۃ: ۲۵۵. (وَہُوَ الَّذِی یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ) پ۱۸، المؤمنون: ۸۰. 2۔۔۔۔۔۔ (إِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ) پ۱، البقرۃ:۲۰. في ''حاشیۃ الصاوي''، ج۱،ص۳۸ تحت ہذہ الآیۃ: وقولہ: (قَدِیْرٌ) من القدرۃ وہو صفۃ أزلیۃ قائمۃ بذاتہ تعالی تتعلق بالممکنات إیجادًا أو إعدامًا علی وفق الإرادۃ والعلم). في ''التفسیر الکبیر''، پ ۱۵، الکہف:۲۵:(أنّہ تعالی قادر علی کل الممکنات)ج۷،ص۴۵۴. في ''المسایرۃ''، ص۳۹۱: (وقدرتہ علی کلّ الممکنات).3۔۔۔۔۔۔ انظر للتفصیل: ''الفتاوی الرضویۃ''، ''سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح'' ج۱۵، ص۳۲۲.
P7
باطل محض ہے، کہ اس میں قدرت کا کیا نقصان! نقصان تو اُس مُحال کا ہے کہ تعلّقِ قدرت کی اُس میں صلاحیت نہیں۔(1) عقیدہ (۱۶): حیا۱ت، قدرت۲، سننا۳، دیکھنا۴ ، کلا۵م، علم۶، اِرادہ ۷ الّٰله (عزوجل) کے صفاتِ ذاتیہ ہیں، مگر کان، آنکھ، زبان سے اُس کا سننا، دیکھنا، کلام کرنا نہیں، کہ یہ سب اَجسام ہیں اور اَجسام سے وہ پاک۔ ہر پست سے پست آواز کو سنتا ہے، ہر باریک سے باریک کو کہ خُوردبین سے محسوس نہ ہو وہ دیکھتا ہے، بلکہ اُس کا دیکھنا اور سننا انہیں چیزوں پر منحصر نہیں، ہر موجود کو دیکھتا ہے اور ہر موجود کو سنتا ہے۔ (2)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ في ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، ص۳۹۳: (یستحیل علیہ) سبحانہ (سمات النقص کالجھل والکذب) بل یستحیل علیہ کل صفۃ لاکمال فیہا ولا نقص؛ لأنّ کلا من صفات الإلہ صفۃ کمال)، انظر للتفصیل: ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، واتفقوا علی أنّ ذلک غیر واقع، ص۲۰۴ ۔۲۱۰، و''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۵، ص۳۲۰۔۳۲۲.2۔۔۔۔۔۔ (اَللہُ لَا إِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ) پ۳، اٰل عمران:۲. (وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) پ۷، المائدۃ:۱۲۰. (إِنَّ اللہَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ) پ۲۴، المؤمن: ۲۰. (وَکَلَّمَ اللہُ مُوسٰی تَکْلِیْمًا) پ۶، النساء:۱۶۴. ( اَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا) پ۲۸، الطلاق:۱۲. (اِنَّ اللہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ) پ۶، المائدۃ:۱. (اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ) پ۱۲، ہود: ۱۰۷. في ''فقہ الأکبر''، ص۱۵۔۱۹: (لم یزل ولا یزال بأسمائہ وصفاتہ الذاتیۃ والفعلیۃ، أمّا الذاتیۃ فالحیاۃ والقدرۃ والعلم والکلام والسمع والبصر والإرادۃ). في ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، ص۳۹۱۔۳۹۲: (وصفات ذاتہ حیاتہ بلا روح حالَّۃ، وعلمہ وقدرتہ وإرادتہ وسمعہ بلا صماخ لکل خفي کوقع أرجل النملۃ) علی الأجسام اللینۃ (وکلام النفس) فإنّہ تعالی یسمع کلاّ منھما (وبصرہ بلا حدقۃ یقلبہا، تعالی رب العالمین عن ذلک) أي: عن الصماخ والحدقۃ ونحوھما من صفات المخلوقین (لکل موجود) 🔚
🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 8
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
عقیدہ (۱۷): مثل دیگر صفات کے کلام بھی قدیم ہے(1)، حادث و مخلوق نہیں، جو قرآنِ عظیم کو مخلوق مانے ھمارے امامِ اعظم و دیگر ائمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم نے اُسے کافر کہا(2)، بلکہ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم سے اُس کی تکفیر ثابت ہے۔ (3) عقیدہ (۱۸): الّٰله (عزوجل)
کا کلام آواز سے پاک ہے (4) اور یہ قرآنِ عظیم جس کو ہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے، مَصاحِف میں لکھتے ہیں، اُسی کا کلام قدیم بلا صوت ہے اور یہ ھمارا پڑھنا لکھنا اور یہ آواز حادث، یعنی ھمارا پڑھنا حادث ہے اور جو ہم نے پڑھا قدیم اور ھمارا لکھنا حادث اور جو لکھا قدیم، ھمارا سنناحادث ہے اور جو ہم نے سنا قدیم، ھمارا حفظ کرنا حادث ہے
ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ= تتعلق بالمبصرات أوبالموجودات فتدرک إدراکاً تاماً لا علی سبیل التخیل والتوہم ولا علی طریق تأثیر حاسۃ ووصول شعاع، (و) السادسۃ (الإرادۃ، و) السابعۃ (التکوین، و) الثامنۃ (الکلام الذي لیس من جنس الحروف والأصوات)؛ لأنّہا أعراض حادثۃ وکلامہ تعالی قدیم فہو منزہ عنہا، ملتقطاً.1۔۔۔۔۔۔ في''الفقہ الأکبر''، ص۲۸: (والقرآن کلام اللہ تعالی فہو قدیم).2۔۔۔۔۔۔ وفي ''منح الروض الأزہر''، ص۲۶: (قال الإمام الأعظم في کتابہ ''الوصیۃ'': من قال بأنّ کلام اللہ تعالی مخلوق فہو کافر باللہ العظیم)، ملتقطاً. وفي ''منح الروض الأزہر''، ص۲۹: (واعلم أنّ ما جاء في کلام الإمام الأعظم وغیرہ من علماء الأنام من تکفیر القائل بخلق القرآن فمحمول علی کفران النعمۃ لا کفر الخروج من الملۃ)۔ وفي ''الحدیقۃ الندیۃ''، ج۱، ص۲۵۸: (ذکر ابن الکمال في بعض رسائلہ: أنّ أبا حنیفۃ وأبا یوسف رضي اللہ تعالی عنھما تناظرا ستۃ أشہر، ثم استقر رأیھما علی أنّ من قال بخلق القرآن فہو کافر، وقد ذکر في الأصول أنّ قول أبي حنیفۃ إنّ القائل بخلق القرآن کافر محمول علی الشتم لا علی الحقیقۃ فہو دلیل علی أنّ القائل بہ مبتدع ضال لا کافر). وفي ''المعتقد المنتقد''، ص۳۸: (ومنکر أصل الکلام کافر لثبوتہ بالکتاب والإجماع، وکذا منکر قدمہ إن أراد المعنی القائم بذاتہ، واتفق السلف علی منع أن یقال القرآن مخلوق وإن أرید بہ اللفظي، والاختلاف في التکفیرکما قیل). قال الإمام أحمد رضا في ''حاشیتہ''، ص۳۸: قولہ: (وکذا منکر قدمہ) أي: (فیہ تکفیر الکرامیۃ وہو مسلک الفقہاء، أمّا جمہور المتکلمین فیأبون الإکفار إلاّ بإنکار شيء من ضروریات الدین، وہو الأحوط المأخوذ المعتمد عندنا وعند المصنف العلام تبعاً للمحققین۔ ۱۲ إمام أھل السنۃ رضي اللہ تعالی عنہ.3۔۔۔۔۔۔ انظر ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۵، ص۳۷۹۔۳۸۴.4۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر''، للقاریئ، ص۱۷: (إنّ کلامہ لیس من جنس الحروف والأصوات). 🔚🔚
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 3
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
یعنی ہمیشہ سے ہے، اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں، باقی ہے(1) یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔(2) عقیدہ (۲): وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔(3) عقیدہ (۳): اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال(4) کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے(5) اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا(6) ، البتہ اُس کے افعال کے ذریعہ سے اِجمالاً اُس کی صفات، پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ ( کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہ،) پ۲۰، القصص: ۸۸.وفي''المعتقد المنتقد''، و منہ أنّہ باق، لیس لوجودہ آخر۔ أي: یستحیل أن یلحقہ عدم۔ وہو معنی کونہ أبدیا). انظر للتفصیل: ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، الأصل الثاني والثالث، تحت قولہ: (أنّہ تعالی قدیم لا أوّل لہ، وأنّ اللہ تعالی أبدي لیس لوجودہ آخر)، ص۲۲۔ ۲۴. 2۔۔۔۔۔۔ (یَا أَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ) پ۱، البقرۃ: ۲۱. (ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ لَا إِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ) پ۷، الأنعام: ۱۰۲. (وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ) پ۱۵، بني اسرآئیل: ۲۳. (أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ) پ۱۲، یوسف: ۴۰.3۔۔۔۔۔۔ (اَللہُ الصَّمَدُ) پ۳۰، الإخلاص: ۲. وفي ''منح الروض الأزہر'' في ''شرح الفقہ الأکبر''، ص۱۴: (اَللہُ الصَّمَدُ) أي: المستغنيعن کل أحد والمحتاج إلیہ کل أحد.4۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کی ذات کا عقل کے ذریعے اِحاطہ نہیں کیا جا سکتا۔5۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کا اِحاطہ کیے ہوئے ہوتی ہے۔6۔۔۔۔۔۔ في''التفسیر الکبیر''، پ۷، الأنعام، تحت الآیۃ : ۱۰۳: (لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ) المرئي إذا کان لہ حد ونھایۃ وأدرکہ البصر بجمیع حدودہ وجوانبہ ونھایاتہ، صارکأنّ ذلک الأبصار أحاط بہ فتسمی ہذہ الرؤیۃ إدراکاً، أما إذا لم یحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤیۃ إدراکاً. فالحاصل: أنّ الرؤیۃ جنس تحتہا نوعان: رؤیۃ مع الإحاطۃ، ورؤیۃ لا مع الإحاطۃ، والرؤیۃ مع الإحاطۃ ہي المسماۃ بالإدراک فنفي الإدراک یفید نفي نوع واحد من نوعي الرؤیۃ، ونفي النوع لا یوجب نفي الجنس، فلم یلزم من نفي الإدراک عن اللہ تعالی نفي الرؤیۃ عن اللہ تعالی)، ج۵، ص۱۰۰.🔚
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 4 . 5
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
عقیدہ (۴):الّٰله (عزوجل) کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر(1)، یعنی صفات اُسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اُس سے کسی طرح کسی نحوِ وجود میں جدا ہوسکیں (2) کہ نفسِ ذات کی مقتضٰی ہیں اور عینِ ذات کو لازم۔ (3) عقیدہ (۵): جس طرح اُس کی ذات قدیم اَزلی اَبدی ہے، صفات بھی قدیم اَزلی اَبَدی ہیں۔ (4) عقیدہ (۶): اُس کی صفات نہ مخلوق ہیں (5) نہ زیرِ قدرت داخل۔ عقیدہ (۷): ذات و صفات کے سِوا سب چیزیں حادث ہیں، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں۔ (6) عقیدہ (۸): صفاتِ الٰہی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے، گمراہ بد دین ہے۔ (7)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ في''المسایرۃ''، ص۳۹۲: (لیست صفاتہ من قبیل الأعراض ولا عینہ ولا غیرہ) . وفي ''شرح العقائد النسفیۃ''، ص۴۷۔۴۸: (وہي لا ہو ولا غیرہ، یعني: أنّ صفات اللہ تعالی لیست عین الذات ولا غیر الذات۔۔۔۔۔۔الخ).2۔۔۔۔۔۔ یعنی کسی بھی طور پر صفات، ذات سے جدا ہو کر نہیں پائی جا سکتیں۔ 3۔۔۔۔۔۔ بلا تشبیہ اس کو یوں سمجھیں کہ پھول کی خوشبو پھول کی صفت ہے جو پھول کے ساتھ ہی پائی جاتی ہے، مگر اس خوشبو کو ہم پھول نہیں کہتے، اور نہ ہی اُسے پھول سے جدا کہہ سکتے ہیں۔ 4۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر'' للقاریئ، ص۲۳: (لم یحدث لہ اسم ولا صفۃ) یعني:أنّ صفات اللہ وأسمائہ کلہا أزلیۃ لا بدایۃ لہا، وأبدیۃ لا نہایۃ لہا، لم یتجدد لہ تعالی صفۃ من صفاتہ ولا اسم من أسمائہ، لأنّہ سبحانہ واجب الوجود لذاتہ الکامل في ذاتہ وصفاتہ، فلوحدث لہ صفۃ أو زال عنہ نعت لکان قبل حدوث تلک الصفۃ وبعد زوال ذلک النعت ناقصا عن مقام الکمال، و ہو في حقہ سبحانہ من المحال، فصفاتہ تعالی کلہا أزلیۃ أبدیۃ). وفي ''المعتمد المستند''، ص۴۶۔۴۷: (وبالجملۃ: فالذي نعتقدہ في دین اللہ تعالی أنّ لہ عزوجل صفات أزلیۃ قدیمۃ قائمۃ بذاتہ عزوجل، لوازم لنفس ذاتہ تعالٰی، ومقتضَیات لہا بحیث لا تقدیر للذات بدونھا۔۔۔۔۔۔إلخ).5۔۔۔۔۔۔ في ''الفقہ الأکبر''، ص۲۵: (صفاتہ في الأزل غیر محدثۃ ولا مخلوقۃ). ''المعتقد المنتقد''، ص۴۹. 6۔۔۔۔۔۔ وفي ''شرح العقائد النسفیۃ''، ص۲۴: (والعالم) أي: ما سوی اللہ تعالی من الموجودات مما یعلم بہ الصانع یقال عالم الأجسام وعالم الأعراض وعالم النباتات وعالم الحیوان إلی غیر ذلک، فتخرج صفات اللہ تعالی؛ لأنّھا لیست غیر الذات کما أنّہا لیست عینھا (بجمیع أجزائہ) من السموات وما فیھا والأرض وما علیہا (محدث).7۔۔۔۔۔۔ في ''المعتقد المنتقد''، ص۴۹: (صفات اللہ تعالی في الأزل غیر محدثۃ ولا مخلوقۃ، فمن قال: إنّہا مخلوقۃ أو محدثۃ، أو وقف فیہا بأن لا یحکم بأنہا قدیمۃ أوحادثۃ، أوشک فیہا، أو تردد في ہذہ المسألۃ ونحوہا فہوکافر باللہ تعالی). =
عقیدہ (۹): جو عالَم میں سے کسی شے کو قدیم مانے یا اس کے حدوث میں شک کرے، کافر ہے۔ (1) عقیدہ (۱۰): نہ الّٰله (عزوجل) کسی کا باپ ہے، نہ بیٹا، نہ اُس کے لیے بی بی، جو اُسے باپ یا بیٹا بتائے یا اُس کے لیے بی بی ثابت کرے کافر ہے (2)، بلکہ جو ممکن بھی کہے گمراہ بد دین ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ= قال الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن في حاشیتہ، ص۵۰: تحت قولہ: ''فہو کافر'': (ھذا نص سیدنا الإمام الأعظم رضي اللہ تعالی عنہ في ''الفقہ الأکبر'' وقد تواتر عن الصحابۃ الکرام والتابعین والمجتہدین الأعلام علیہم الرضوان التام إکفار القائل بخلق الکلام کما نقلنا نصوص کثیر منھم في ''سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح'' وہم القدوۃ للفقہاء الکرام في إکفار کل من أنکر قطعیاً، والمتکلمون خصّوہ بالضروري وہو الأحوط. ۱۲ وفي ''منح الروض الأزہر''، ص۲۵، تحت قولہ: (فہوکافر باللہ) أي: ببعض صفاتہ، وہو مکلف بأن یکون عارفاً بذاتہ وجمیع صفاتہ إلاّ أن الجھل والشک الموجبین للکفر مخصوصان بصفات اللہ المذکورۃ من النعوت المسطورۃ المشہورۃ، أعني: الحیاۃ والقدرۃ والعلم والکلام والسمع والبصر والإرادۃ والتخلیق والترزیق.1۔۔۔۔۔۔ في ''الشفا''، فصل في بیان ما ہو من المقالات کفر، ج۲، ص۲۸۳: (نقطع علی کفر من قال بقدم العالم، أو بقائہ، أو شک في ذلک). و''المعتقد المنتقد، ص۱۹.2۔۔۔۔۔۔ ( لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ) پ۳۰، الإخلاص:۳. (مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًا) پ۲۹، الجن : ۳. (وَمَا یَنْبَغِی لِلرَّحْمٰنِ أَنْ یَتَّخِذَ وَلَدًا) پ۱۶، مریم: ۹۲. 🔚
🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 6 . 7
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
عقیدہ (۱۱): الّٰله (عزوجل) حَی ہے، یعنی خود زندہ ہے اور سب کی زندگی اُس کے ہاتھ میں ہے، جسے جب چاہے زندہ کرے اور جب چاہے موت دے۔ (1) عقیدہ (۱۲): وہ ہر ممکن پر قادر ہے، کوئی ممکن اُس کی قدرت سے باہر نہیں۔ (2) عقیدہ (۱۳): جو چیز مُحال ہے، اﷲ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اُس کی قدرت اُسے شامل ہو، کہ مُحال اسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہوسکے اور جب مقدور ہوگا تو موجود ہوسکے گا، پھر مُحال نہ رہا۔ اسے یوں سمجھو کہ دوسرا خدا مُحال ہے یعنی نہیں ہوسکتا تو یہ اگر زیرِ قدرت ہو تو موجود ہوسکے گا تو مُحال نہ رہا اور اس کو مُحال نہ ماننا وحدانیت کا انکار ہے۔ یوہیں فنائے باری مُحال ہے، اگر تحتِ قدرت ہو تو ممکن ہوگی اور جس کی فنا ممکن ہو وہ خدا نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ مُحال پر قدرت ماننا اﷲ (عزوجل) کی اُلوہیت سے ہی انکار کرنا ہے۔ (3) عقیدہ (۱۴): ہر مقدور کے لیے ضرور نہیں کہ موجود ہو جائے، البتہ ممکن ہونا ضروری ہے اگرچہ کبھی موجود نہ ہو۔ عقیدہ (۱۵): وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر اُ س چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے، یعنی عیب ونقصان کا اُس میں ہونا مُحال ہے، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو، نہ نقصان، وہ بھی اُس کے لیے مُحال، مثلاً جھوٹ، دغا، خیانت، ظلم، جھل، بے حیائی وغیرہا عیوب اُس پرقطعاً محال ہیں اوریہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھو ٹ بول سکتا ہے، مُحال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور یہ سمجھنا کہ مُحا لات پر قادر نہ ہو گا تو قدرت ناقص ہو جائے گی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ (ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ) پ۳، البقرۃ: ۲۵۵. (وَہُوَ الَّذِی یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ) پ۱۸، المؤمنون: ۸۰. 2۔۔۔۔۔۔ (إِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ) پ۱، البقرۃ:۲۰. في ''حاشیۃ الصاوي''، ج۱،ص۳۸ تحت ہذہ الآیۃ: وقولہ: (قَدِیْرٌ) من القدرۃ وہو صفۃ أزلیۃ قائمۃ بذاتہ تعالی تتعلق بالممکنات إیجادًا أو إعدامًا علی وفق الإرادۃ والعلم). في ''التفسیر الکبیر''، پ ۱۵، الکہف:۲۵:(أنّہ تعالی قادر علی کل الممکنات)ج۷،ص۴۵۴. في ''المسایرۃ''، ص۳۹۱: (وقدرتہ علی کلّ الممکنات).3۔۔۔۔۔۔ انظر للتفصیل: ''الفتاوی الرضویۃ''، ''سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح'' ج۱۵، ص۳۲۲.
P7
باطل محض ہے، کہ اس میں قدرت کا کیا نقصان! نقصان تو اُس مُحال کا ہے کہ تعلّقِ قدرت کی اُس میں صلاحیت نہیں۔(1) عقیدہ (۱۶): حیا۱ت، قدرت۲، سننا۳، دیکھنا۴ ، کلا۵م، علم۶، اِرادہ ۷ الّٰله (عزوجل) کے صفاتِ ذاتیہ ہیں، مگر کان، آنکھ، زبان سے اُس کا سننا، دیکھنا، کلام کرنا نہیں، کہ یہ سب اَجسام ہیں اور اَجسام سے وہ پاک۔ ہر پست سے پست آواز کو سنتا ہے، ہر باریک سے باریک کو کہ خُوردبین سے محسوس نہ ہو وہ دیکھتا ہے، بلکہ اُس کا دیکھنا اور سننا انہیں چیزوں پر منحصر نہیں، ہر موجود کو دیکھتا ہے اور ہر موجود کو سنتا ہے۔ (2)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ في ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، ص۳۹۳: (یستحیل علیہ) سبحانہ (سمات النقص کالجھل والکذب) بل یستحیل علیہ کل صفۃ لاکمال فیہا ولا نقص؛ لأنّ کلا من صفات الإلہ صفۃ کمال)، انظر للتفصیل: ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، واتفقوا علی أنّ ذلک غیر واقع، ص۲۰۴ ۔۲۱۰، و''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۵، ص۳۲۰۔۳۲۲.2۔۔۔۔۔۔ (اَللہُ لَا إِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ) پ۳، اٰل عمران:۲. (وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) پ۷، المائدۃ:۱۲۰. (إِنَّ اللہَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ) پ۲۴، المؤمن: ۲۰. (وَکَلَّمَ اللہُ مُوسٰی تَکْلِیْمًا) پ۶، النساء:۱۶۴. ( اَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا) پ۲۸، الطلاق:۱۲. (اِنَّ اللہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ) پ۶، المائدۃ:۱. (اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ) پ۱۲، ہود: ۱۰۷. في ''فقہ الأکبر''، ص۱۵۔۱۹: (لم یزل ولا یزال بأسمائہ وصفاتہ الذاتیۃ والفعلیۃ، أمّا الذاتیۃ فالحیاۃ والقدرۃ والعلم والکلام والسمع والبصر والإرادۃ). في ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، ص۳۹۱۔۳۹۲: (وصفات ذاتہ حیاتہ بلا روح حالَّۃ، وعلمہ وقدرتہ وإرادتہ وسمعہ بلا صماخ لکل خفي کوقع أرجل النملۃ) علی الأجسام اللینۃ (وکلام النفس) فإنّہ تعالی یسمع کلاّ منھما (وبصرہ بلا حدقۃ یقلبہا، تعالی رب العالمین عن ذلک) أي: عن الصماخ والحدقۃ ونحوھما من صفات المخلوقین (لکل موجود) 🔚
🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾🌾
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 8
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
عقیدہ (۱۷): مثل دیگر صفات کے کلام بھی قدیم ہے(1)، حادث و مخلوق نہیں، جو قرآنِ عظیم کو مخلوق مانے ھمارے امامِ اعظم و دیگر ائمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم نے اُسے کافر کہا(2)، بلکہ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم سے اُس کی تکفیر ثابت ہے۔ (3) عقیدہ (۱۸): الّٰله (عزوجل)
کا کلام آواز سے پاک ہے (4) اور یہ قرآنِ عظیم جس کو ہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے، مَصاحِف میں لکھتے ہیں، اُسی کا کلام قدیم بلا صوت ہے اور یہ ھمارا پڑھنا لکھنا اور یہ آواز حادث، یعنی ھمارا پڑھنا حادث ہے اور جو ہم نے پڑھا قدیم اور ھمارا لکھنا حادث اور جو لکھا قدیم، ھمارا سنناحادث ہے اور جو ہم نے سنا قدیم، ھمارا حفظ کرنا حادث ہے
ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ= تتعلق بالمبصرات أوبالموجودات فتدرک إدراکاً تاماً لا علی سبیل التخیل والتوہم ولا علی طریق تأثیر حاسۃ ووصول شعاع، (و) السادسۃ (الإرادۃ، و) السابعۃ (التکوین، و) الثامنۃ (الکلام الذي لیس من جنس الحروف والأصوات)؛ لأنّہا أعراض حادثۃ وکلامہ تعالی قدیم فہو منزہ عنہا، ملتقطاً.1۔۔۔۔۔۔ في''الفقہ الأکبر''، ص۲۸: (والقرآن کلام اللہ تعالی فہو قدیم).2۔۔۔۔۔۔ وفي ''منح الروض الأزہر''، ص۲۶: (قال الإمام الأعظم في کتابہ ''الوصیۃ'': من قال بأنّ کلام اللہ تعالی مخلوق فہو کافر باللہ العظیم)، ملتقطاً. وفي ''منح الروض الأزہر''، ص۲۹: (واعلم أنّ ما جاء في کلام الإمام الأعظم وغیرہ من علماء الأنام من تکفیر القائل بخلق القرآن فمحمول علی کفران النعمۃ لا کفر الخروج من الملۃ)۔ وفي ''الحدیقۃ الندیۃ''، ج۱، ص۲۵۸: (ذکر ابن الکمال في بعض رسائلہ: أنّ أبا حنیفۃ وأبا یوسف رضي اللہ تعالی عنھما تناظرا ستۃ أشہر، ثم استقر رأیھما علی أنّ من قال بخلق القرآن فہو کافر، وقد ذکر في الأصول أنّ قول أبي حنیفۃ إنّ القائل بخلق القرآن کافر محمول علی الشتم لا علی الحقیقۃ فہو دلیل علی أنّ القائل بہ مبتدع ضال لا کافر). وفي ''المعتقد المنتقد''، ص۳۸: (ومنکر أصل الکلام کافر لثبوتہ بالکتاب والإجماع، وکذا منکر قدمہ إن أراد المعنی القائم بذاتہ، واتفق السلف علی منع أن یقال القرآن مخلوق وإن أرید بہ اللفظي، والاختلاف في التکفیرکما قیل). قال الإمام أحمد رضا في ''حاشیتہ''، ص۳۸: قولہ: (وکذا منکر قدمہ) أي: (فیہ تکفیر الکرامیۃ وہو مسلک الفقہاء، أمّا جمہور المتکلمین فیأبون الإکفار إلاّ بإنکار شيء من ضروریات الدین، وہو الأحوط المأخوذ المعتمد عندنا وعند المصنف العلام تبعاً للمحققین۔ ۱۲ إمام أھل السنۃ رضي اللہ تعالی عنہ.3۔۔۔۔۔۔ انظر ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۵، ص۳۷۹۔۳۸۴.4۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر''، للقاریئ، ص۱۷: (إنّ کلامہ لیس من جنس الحروف والأصوات). 🔚🔚
💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 9.10
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
اور جو ہم نے حفظ کیا قدیم ہے(1)،..................................
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ قال الإمام أحمد رضا في ''المعتمد المستند''، ص۳۵: (وإنّما المذہب ما علیہ أئمۃ السلف أنّ کلام اللہ تعالی واحد لا تعدد فیہ أصلا، لم ینفصل ولن ینفصل عن الرحمن، ولم یحل في قلب ولا لسان، ولا أوراق ولا آذان، ومع ذلک لیس المحفوظ في صدورنا إلاّ ہو، ولا المتلو بأفواہنا إلاّ ہو، ولا المکتوب في مصاحفنا إلاّ ہو، ولا المسموع بأسماعنا إلاّ ہو، لا یحل لأحد أن یقول بحدوث المحفوظ المتلو المکتوب المسموع، إنّما الحادث نحن، وحفظنا، وألسننا، وتلاوتنا، وأیدینا، وکتابتنا، وآذاننا، وسماعتنا، والقرآن القدیم القائم بذاتہ تعالی ہو المتجلي علی قلوبنا بکسوۃ المفہوم، وألسنتنا بصورۃ المنطوق، ومصاحفنا بلباس المنقوش، وآذاننا بزيّ المسموع فہو المفہوم المنطوق المنقوش المسموع لا شيء آخر غیرہ دالاً علیہ، وذلک من دون أن یکون لہ انفصال عن اللہ سبحانہ وتعالی، أو اتصال بالحوادث أو حلول في شيء مما ذکر، وکیف یحلّ القدیم في الحادث، ولا وجود للحادث مع القدیم، إنّما الوجود للقدیم وللحادث منہ إضافۃ لتکریم، ومعلوم أنّ تعدد التجلي لا یقتضي تعدد المتجلي۔؎ دمبدم گر لباس گشت بدل شخص صاحب لباس راچہ خلل عرف ھذا من عرف، ومن لم یقدر علی فہمہ فعلیہ أن یؤمن بہ کما یؤمن باللہ وسائر صفاتہ من دون إدراک الکنہ). وقد فصل وحقق الإمام أحمد رضا ہذہ المسألۃ في رسالتہ: ''أنوار المنان في توحید القرآن''، وقال في آخرہ، ص۲۷۰۔۲۷۱: (وذلک قول أئمتنا السلف إنّ القرآن واحد حقیقي أزلي، وہو المتجلّي في جمیع المجالي، لیس علی قدمہ بحدوثہا أثر، ولا علی وحدتہ بکثرتہا ضرر، ولا لغیرہ فیہا عین ولا أثر، القراء ۃ والکتابۃ والحفظ والسمع والألسن والبنان والقلوب والآذان،کلہا حوادث عرضۃ للغیار، والمقروء المکتوب المحفوظ المسموع ہوالقرآن القدیم حقیقۃ وحقا لیس في الدار غیرہ دیّار، والعجب أنّہ لم یحل فیہا ولم تخل عنہ، ولم یتصل بہا ولم تبن منہ، وھذا ہو السر الذي لا یفہمہ إلاّ العارفون، (وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَآ إِلاَّ الْعَالِمُوْنَ) إنّ من العلم کہیأۃ المکنون لا یعلمہ إلاّ العلماء باللہ، فإذا نطقوا بہ لاینکرہ إلاّ أھل الغرۃ باللہ۔ رواہ في ''مسند الفردوس'' عن أبي ہریرۃ رضي اللہ تعالی عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم. والمسألۃ وإن کانت من أصعب ما یکون فلم آلُ بحمد اللہ تعالی جھداً في الإیضاح حتی آض بعونہ تعالی لیلہا کنہارہا، بل قد استغنیت عن المصباح بالإصباح. وبالجملۃ فاحفظ عنّي ھذا الحرف المبین ینفعک یوم لا ینفع مال ولابنون إلاّ من أتی اللہ بقلب سلیم، أنّک إن قلت إنّ جبریل حدث الآن بحدوث الفحل أو لم یزل فحلا مذ وجد فقد ضللت ضلالا مھینا، وإن قلت إنّ الفحل لم یکن جبریل بل شيء آخر علیہ دلیل فقد بھتّ بھتا مبینا، ولکن قل ہو جبریل قطعا تصور بہ، فکذا إن زعمت أنّ القرآن حدث بحدوث المکتوب أو المقروء أو لم یزل أصواتا ونقوشا من الأزل فقد أخطأت الحق بلا مریۃ، وإن زعمت أنّ
P10
یعنی متجلّی قدیم ہے اور تجلّی حادث۔ (1) عقیدہ (۱۹): اُس کا علم ہر شے کو محیط یعنی جزئیات، کلیات، موجودات، معدومات، ممکنات، مُحالات، سب کو اَزل میں جانتا تھا اور اب جانتا ہے اور اَبَد تک جانے گا، اشیاء بدلتی ہیں اور اُس کا علم نہیں بدلتا، دلوں کے خطروں اور وَسوسوں پر اُس کو خبر ہے اور اُس کے علم کی کوئی انتہا نہیں۔ (2) عقیدہ (۲۰): وہ غیب و شہادت (3) سب کو جانتا ہے (4)، علمِ ذاتی اُس کا خاصہ ہے، جو شخص علمِ ذاتی، غیب خواہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــالمکتوب المقروء لیس کلام اللہ الأزلي بل شيء غیرہ یؤدي مؤدّاہ فقد أعظمت الفریۃ، ولکن قل ہو القرآن حقا تطوّر بہ، وہکذا کلما اعتراک شبہۃ في ھذا المجال، فاعرضہا علی حدیث الفحل تنکشف لک جلیۃ الحال، وما التوفیق إلاّ باللہ المہیمن المتعال).1۔۔۔۔۔۔ متجلّی یعنی کلام الہی، قدیم ہے،اور تجلّی یعنی ھمارا پڑھنا،سننا، لکھنا ، یاد کرنا یہ سب حادث ہے۔2۔۔۔۔۔۔ (یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰـٰوتِ وَالْأَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ وَاللہُ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ) پ۲۸، التغابن: ۴🔚
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 11.12
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
شہادت کا غیرِ خدا کے لیے ثابت کرے کافر ہے۔(1) علمِ ذاتی کے یہ معنی کہ بے خدا کے دیے خود حاصل ہو۔ عقیدہ (۲۱) : وہی ہر شے کا خالق ہے(2) ، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اُسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔(3) عقیدہ (۲۲) : حقیقۃً روزی پہنچانے والا وہی ہے (4)، ملائکہ وغیر ہم و سائل و وسائط ہیں۔ (5) عقیدہ (۲۳) : ہر بھلائی، بُرائی اُس نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اورجو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اُس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمّہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ في ''الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ''، ص۳۹: (العلم ذاتي مختص بالمولی سبحانہ وتعالی لا یمکن لغیرہ، ومن أثبت شیأا منہ ولو أدنی من أدنی من أدنی من ذرۃ لأحد من العالمین فقد کفر وأشرک وبار وھلک)، ملتقطاً. انظر التفصیل: ''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۲۹، ص۴۳۶۔۴۳۷. 2۔۔۔۔۔۔ (اَللہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ) پ۱۳، الرعد: ۱۶. 3۔۔۔۔۔۔ (وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ) پ۲۳، الصآفات: ۹۶. في ''شرح العقائد النسفیۃ''، ص۷۶: (واللہ تعالی خالق لأفعال العباد من الکفر والإیمان والطاعۃ والعصیان). في ''الیواقیت''، ص۱۸۹: ( المبحث الرابع والعشرون: في أنّ اللہ تعالٰی خالق لأفعال العبد کما ہو خالق لذواتہم).4۔۔۔۔۔۔ (إِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ) پ۲۷، الذّٰریٰت: ۵۸.5۔۔۔۔۔۔ (فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا) پ۲۶، الذّٰریٰت: ۴. (فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا) پ۳۰، النازعات: ۵. في''تفسیر البغوي''، پ۳۰،تحت الآیۃ:۵ (فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا) قال ابن عباس: ہم الملائکۃ وکّلوا بأمور عرّفہم اللہ عزوجل العمل بہا. قال عبدالرحمن بن سابط:یدبرالأمر في الدنیا أربعۃ جبریل ومیکائیل وملک الموت وإسرافیل علیہم السلام، أمّا جبریل فموکل بالوحي والبطش وہزم الجیوش، وأمّا میکائیل فموکل بالمطر والنبات والأرزاق، وأمّا ملک الموت فموکل بقبض الأنفس، وأمّا إسرافیل فہو صاحب الصور، ولا ینزل إلاّ للأمر العظیم. ج۴، ص، ۴۱۱. وفي''کنزالعمال''، کتاب البیوع، قسم الأقوال، الجزء ۴، ص۱۳، الحدیث:۹۳۱۷: ((إنّ للہ تعالی ملائکۃ موکلین بأرزاق بنيآدم، ثم قال لہم: أیما عبد وجدتموہ جعل الہمّ ہمّا واحدًا، فضمنوا رزقہ السموات والأرض وبني آدم، وأیما عبد وجدتموہ طلبہ فإن تحری العدل فطیبوا لہ ویسروا، وإن تعدی إلی غیر ذلک فخلوا بینہ وبین ما یرید، ثم لا ینال فوق الدرجۃ التي کتبتہا لہ)).
P12
بھلائی لکھتا تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔ (1) تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس اُمت کا مجوس بتایا۔ (2) عقیدہ (۲۴): قضا تین ۳ قسم ہے۔ مُبرَمِ ۱ حقیقی، کہ علمِ الٰہی میں کسی شے پر معلّق نہیں۔ اور معلّقِ ۲ محض، کہ صُحفِ ملائکہ میں کسی شے پر اُس کا معلّق ہونا ظاہر فرما دیا گیا ہے۔ اور معلّقِ ۳ شبیہ بہ مُبرَم، کہ صُحف ِملائکہ میں اُس کی تعلیق مذکور نہیں اور علمِ الٰہی میں تعلیق ہے۔ وہ جو مُبرَمِ حقیقی ہے اُس کی تبدیل نا ممکن ہے، اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو اُنھیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے۔ (3) ملائکہ قومِ لوط پر عذاب لے کر آئے، سیّدنا ابراہیم خلیل اﷲ علی نبیّنا الکریم وعلیہ افضل الصّلاۃ والتسلیم کہ رحمتِمحضہ تھے، اُن کا نامِ پاک ہی ابراہیم ہے، یعنی ابِ رحیم(4) ، مہربان باپ، اُن کافروں کے بارے میں اتنے ساعی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ في '' الفقہ الأکبر''، ص۴۰: (وکان اللہ تعالی عالما في الأزل بالأشیاء قبل کونہا، وہو الذي قدّر الأشیاء وقضاہا). في''شرح النووي''، کتاب الإیمان، ج۱، ص۲۷: (واعلم : أنّ مذہب أھل الحق إثبات القدر ومعناہ: أنّ اللہ تبارک وتعالی قدّر الأشیاء في القدم وعلم سبحانہ أنّہا ستقع في أوقات معلومۃ عندہ سبحانہ وتعالی وعلی صفات مخصوصۃ فہي تقع علی حسب ما قدّرہا سبحانہ وتعالی ۔۔۔۔۔۔ واللہ سبحانہ وتعالی خالق الخیر والشرجمیعًا لا یکون شيء منھما إلاّ بمشیّتہ، فھما مضافان إلی اللہ سبحانہ وتعالی خلقًا وإیجادًا، 🔚
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 13.14
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
ہوئے کہ اپنے رب سے جھگڑنے لگے، اُن کا رب فرماتا ہے۔
( یُجَادِلُنَا فِیۡ قَوْمِ لُوۡطٍ ﴿ؕ۷۴﴾ (1)''ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں۔'' یہ قرآنِ عظیم نے اُن بے دینوں کا رَد فرمایا جو محبوبانِ خدا کی بارگاہِ عزت میں کوئی عزت و وجاہت نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اس کے حضور کوئی دَم نہیں مار سکتا، حالانکہ اُن کا رب عزوجل اُن کی وجاہت اپنی بارگاہ میں ظاہر فرمانے کو خود ان لفظوں سے ذکر فرماتا ہے کہ : ''ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں''، حدیث میں ہے: شب ِمعراج حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک آواز سنی کہ کوئی شخص اﷲ عزوجل کے ساتھ بہت تیزی اور بلند آواز سے گفتگو کر رہا ہے، حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جبریل امین علیہ الصلاۃ والسلام سے دریافت فرمایا :''کہ یہ کون ہیں؟ '' عرض کی موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام، فرمایا: ''کیا اپنے رب پر تیز ہو کر گفتگو کرتے ہیں؟'' عرض کی: اُن کا رب جانتا ہے کہ اُن کے مزاج میں تیزی ہے۔ (2) جب آیہ کریمہ (وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ) ـ3ـ
نازل ہوئی کہ ''بیشک عنقریب تمھیں تمھارا رب اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔'' حضور سیّدالمحبوبین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِذاً لاَّ أَرْضٰی وَوَاحِدٌ مِّنْ أُمَّتِيْ فِي النَّارِ)).(4)
''ایسا ہے تو میں راضی نہ ہوں گا، اگر میرا ایک اُمتی بھی آگ میں ہو۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــوکثیراً ما یقع الاتفاق بین السّریاني والعربي أو یقاربہ في اللفظ؛ ألا تری أنّ إبراہیم تفسیرہ: أب راحم؛ لرحمتہ بالأطفال، ولذلک جعل ہو وسارۃ زوجتہ کافلین لأطفال المؤمنین الذین یموتون صغاراً إلی یوم القیامۃ). و''تفسیر روح البیان''،ج۱، ص۲۲۱.1۔۔۔۔۔۔ پ۱۲، ھود: ۷۴. 2۔۔۔۔۔۔ عن عبد اللہ بن مسعود عن أبیہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((سمعت کلاماً في السمائ، فقلت: یا جبریل! من ھذا؟)) قال: ھذا موسی، قلت: ((ومن یناجي؟)) قال: ربہ تعالی، قلت: ((ویرفع صوتہ علی ربہ؟)) قال: إنّ اللہ عزوجل قد عرف لہ حدَّتَہ.''حلیۃ الأولیائ''، ج۱۰، ص۴۱۷، الحدیث: ۱۵۷۰۸. ''کنز العمال''، کتاب الفضائل، فضائل سائر الأنبیائ، رقم: ۳۲۳۸۵، ج۶، الجزء ۱۱، ص۲۳۲. ''فتح الباری''، کتاب مناقب الأنصار، باب المعراج، ج۷، ص۱۸۰، تحت الحدیث: ۳۸۸۷. 3۔۔۔۔۔۔ پ۳۰، الضحٰی: ۵.4۔۔۔۔۔۔ ''التفسیر الکبیر''، پ۳۰، الضحی: تحت الآیۃ: ۵، ج۱۱، ص۱۹۴.
P14
یہ تو شانیں بہت رفیع ہیں، جن پر رفعت عزت وجاہت ختم ہے۔ صلوات اﷲ تعالیٰ و سلامہ علیہم مسلمان ماں باپ کا کچّا بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے اُس کے لیے حدیث میں فرمایا: کہ ''روزِ قیامت اﷲ عزوجل سے اپنے ماں باپ کی بخشش کے لیے ایسا جھگڑے گا جیسا قرض خواہ کسی قرض دار سے، یہاں تک کہ فرمایا جائے گا:
((أَیُّـھَا السِّقْطُ المُرَاغِمُ رَبَّـہٗ)).(1)
''اے کچے بچے! اپنے رب سے جھگڑنے والے! اپنے ماں باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں چلا جا۔'' خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، مگر ایمان والوں کے لیے بہت نافع اور شیاطین الانس کی خبا ثت کا دافع تھا، کہنا یہ ہے کہ قومِ لوط پر عذاب قضائے مُبرَمِ حقیقی تھا، خلیل اﷲ علیہ الصّلاۃ والسلام اس میں جھگڑے تو اُنھیں ارشاد ہوا:
''اے ابراہیم! اس خیال میں نہ پڑو ... بیشک اُن پر وہ عذاب آنے والاہے جو پھرنے کا نہیں۔'' اور وہ جو ظاہر قضائے معلّق ہے، اس تک اکثر اولیا کی رسائی ہوتی ہے، اُن کی دُعا سے، اُن کی ہمّت سے ٹل جاتی ہے اور وہ جو متوسّط حالت میں ہے، جسے صُحف ِملائکہ کے اعتبا ر سے مُبرَم بھی کہہ سکتے ہیں، اُس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ حضور سیّدنا غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسی کو فرماتے ہیں: ''میں قضائے مُبرَم کو رد کر دیتا ہوں'' (3)، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ عن علي قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((إنّ السقط لیراغم ربہ إذا أدخل أبویہ النار، فیقال: أیہا السقط المراغم ربہ أدخل أبویک الجنۃ، فیجرھما بسررہ حتی یدخلھما الجنۃ)). قال أبو علي: یراغم ربہ، یغاضب. ''سنن ابن ماجہ''، أبواب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء فیمن أصیب بسقط، الحدیث: ۱۶۰۸، ج۲، ص۲۷۳. 2۔۔۔۔۔۔ ( یٰاِ بْرٰہِیمُ أَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا إِنَّہ، قَدْ جَآءَ أَمْرُ رَبِّکَ وَإِنَّہُمْ اٰتِیْہِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ) پ۱۲، ھود: ۷۶.3۔🔚
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 16
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی کی نسبت حدیث میں ارشاد ہوا:
((إِنَّ الدُّعَاءَ یَرُدُّ القَضَاءَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ)).(1)
''بیشک دُعا قضائے مُبرم کو ٹال دیتی ہے۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــکسی چیز سے بآسانی ٹل جائے، پس مجھے ایک قسم کی مایوسی ہوئی تو پیر دستگیر سید محی الدین قدس سرہ النورانی کا ارشاد دوبارہ یاد آگیا تو میں نے دوبارہ حق تعالی کی بارگاہ میں آہ وزاری اور عجزوانکساری کی تو مجھے محض فضل وکرم سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ قضائے معلق کی دو قسمیں ہیں ایک قسم قضائے معلق کی وہ ہے کہ اس کی تعلیق لوح محفوظ میں ظاہر کی گئی ہے اور فرشتگانِ الہی کو اس کی اطلاع دی گئی ہے اور دوسری قسم قضائے معلق کی وہ ہے کہ اس کی تعلیق خدائے بزرگ وبرتر کے نزدیک ہے اور لوح محفوظ میں وہ قضائے مبرم کی صورت رکھتی ہے،(در حقیقت یہ قسم نہ تو مطلق معلق ہے اور نہ مطلق مبرم بلکہ مشابہ بہ مبرم ہے جو کہ بظاہر لوح محفوظ میں مطلق نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں مشروط بشرط ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ خاصانِ خدا کی دعاؤں سے ٹل جاتی ہے، حاشیہ بر مکتوب بتصرف ما) اور یہ بھی قضائے معلق کی طرح تبدیلی کا احتمال رکھتی ہے۔ پس اس تقریر سے معلوم ہوا کہ حضرت پیر دستگیر علیہ الرحمہ کا ارشاد(میں قضائے مبرم کو رد کردیتا ہوں، مترجم) اس قسم اخیر(یعنی مشابہ بہ مبرم) کے بارے میں ہے نہ کہ مبرم حقیقی کے بارے میں، کیونکہ اس(مبرم حقیقی) میں تصرف وتبدیلی عقلی و شرعی لحاظ سے محال ہے، حق بات یہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں کہ جو اس قضاء(مشابہ بہ مبرم) کی خبر رکھتے ہیں اور کیونکر رکھ سکتے ہیں جبکہ اس میں تصرف نہیں ہوپاتا ، اور میرے دوست کو جو آزمائش پیش آئی تھی اسی کے سبب سے میں نے اس قسم کو دریافت کیا اور حضرت حق سبحانہ وتعالی نے اس فقیر کی دعا سے اس کی آزمائش کو دور کردیا۔ 1۔۔۔۔۔۔ ''کنز العمال''، کتاب الأذکار، ج۱، الجزء الثاني، ص۲۸، الحدیث:۳۱۱۷. بألفاظ متقاربۃ. قال الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن في ''المعتمد المستند'' حاشیہ نمبر ۷۷ ، ص۵۴ ۔۵۵: (أقول: أخرج أبو الشیخ في کتاب الثواب عن أنس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: ((أکثر من الدعائ، فإنّ الدعاء یردّ القضاء المبرم))، وأخرج الدیلمي في ''مسند الفردوس'' عن أبي موسی الأشعري رضي اللہ تعالی عنہ وابن عساکر عن نمیر بن أوس الأشعري مرسلًا کِلاھما عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((الدعاء جند من أجناد اللہ مجند یرد القضاء بعد أن یبرم)). وتحقیق المقام علی ما ألہمني الملک العلام أنّ الأحکام الإلہیۃ التشریعیۃ کما تأتي علی وجہین: (۱) مطلق عن التقیید بوقت کعامتہا و(۲) مقید بہ کقولہ تعالی: (فَإِنْ شَہِدُوْا فَأَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَہُنَّ سَبِیلْاً)، پ۴، النساء: ۱۵، فلما نزل حدّ الزنا قال صلّی اللہ تعالی علیہ وسلم: ((خذوا عنّي قد جعل اللہ لہنّ سبیلا).الحدیث. رواہ ''مسلم'' کتاب الحدود، باب حد الزنا، الحدیث: ۱۶
🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 18
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
مسئلہ (۱): قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے، ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سببِ ھلاکت ہے، صدیق وفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنھما اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے۔ (1) ما و شما (2) کس گنتی میں ...! اتنا سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے آدمی کو مثلِ پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس و حرکت نہیں پیدا کیا، بلکہ اس کو ایک نوعِ اختیار (3) دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے، بُرے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیے ہیں، کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسی قسم کے سامان مہیّا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اُس پر مؤاخذہ ہے۔ (4)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ عن ثوبان قال: اجتمع أربعون رجلاً من الصحابۃ ینظرون في القدر والجبر، فیہم أبو بکر وعمر رضي اللہ تعالی عنھما، فنزل الروح الأمین جبریل فقال: یا محمد! اخرج علی أمتک فقد أحدثوا، فخرج علیہم في ساعۃ لم یکن یخرج علیہم فیھا، فأنکروا ذلک منہ وخرج علیہم ملتمعا لونہ متوردۃ وجنتاہ کأنما تفقأ بحب الرمان الحامض، فنہضوا إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاسرین أذرعہم ترعد أکفہم و أذرعہم، فقالوا: تبنا إلی اللہ و رسولہ فقال: ((أولی لکم إن کدتم لتوجبون، أتاني الروح الأمین فقال: أخرج علی أمتک یا محمد فقد أحدثت)). رواہ الطبراني في ''المعجم الکبیر''، الحدیث: ۱۴۲۳، ج۲، ص۹۵. عن أبي ہریرۃ قال: خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر، فغضب حتی احمرّ وجہہ حتی کأنّما فقیء في وجنتیہ الرمان، فقال: ((أبھذا أمرتم أم بھذا أرسلت إلیکم؟ إنما ھلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ھذا الأمر، عزمت علیکم ألاّ تنازعوا فیہ)). ''سنن الترمذي''، کتاب القدر، باب ما جاء من التشدید... إلخ، الحدیث:۲۱۴۰، ج۴، ص۵۱.2۔۔۔۔۔۔ ہم اور آپ۔3۔۔۔۔۔۔ ایک طرح کا اختیار۔4۔۔۔۔۔۔ في ''منح الروض الأزہر''، ص۴۲۔۴۳: (فللعباد أفعال اختیاریۃ یثابون علیہا إن کانت طاعۃ، ویعاقبون علیہا إن کانت معصیۃ، لا کما زعمت الجبریۃ أن لا فعل للعبد أصلا کسبا ولا خلقا، وأنّ حرکاتہ بمنزلۃ حرکات الجمادات لا قدرۃَ لہ علیہا، لا مؤثرۃ، ولا کاسبۃ في مقام الاعتبار ولا قصد ولا إرادۃ ولا اختیار، وھذا باطل، لأنّا نفرق بین حرکۃ البطش وحرکۃ الرعش، ونعلم أنّ الأول باختیارہ دون الثاني لاضطرارہ). في ''الحدیقۃ الندیۃ''، ج۱،ص۲۶۲:(للعباد) المکلفین بالأمر والنہي(اختیارات لأفعالہم بہا، یثابون) أي: یثیبہم اللہ تعالی یوم القیامۃ علی ما صدر منھم من الخیر مما خلقہ اللہ تعالی منسوبا إلیہم بسبب خلق اللہ تعالی إرادتہم لہ، (علیہا)، أي: لأجل تلک الاختیارات، (یعاقبون) أي: یعاقبہم اللہ تعالی یوم القیامۃ حیث صدر منھم بہا أفعالا من الشر خلقہا تعالی لہم منسوبۃ إلیہم بسبب خلقہ إرادتہم لہا وحیث ثبت أنّ للإنسان اختیارا خلقہ اللہ تعالی فیہ، فقد انتفی مذہب الجبریۃ القائلین بأن الإنسان مجبور علی فعل الخیر والشر، ثم إنّ ذلک الاختیار الذي خلقہ اللہ تعالی في الإنسان بخلق اللہ تعالی عندہ لا بہ، ولا فیہ، ولا منہ أفعال الخیر والشر، فینسبہا للإنسان فیکون اختیار الإنسان المخلوق فیہ بمنزلۃ یدہ المخلوقۃ لہ بحیث لا تأثیر🔚
🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 19.20
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا، دونوں گمراہی ہیں۔ (1) مسئلہ (۲): بُرا کام کرکے تقدیرکی طرف نسبت کرنا اور مشیتِالٰہی کے حوالہ کرنا بہت بُری بات ہے ، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے، اسے منجانب اﷲ کہے اور جو برائی سر زد ہو اُس کو شامتِ نفس تصوّر کرے۔ (2) عقیدہ (۲۵): اﷲ تعالیٰ جہت ومکا ن و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔ (3)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــلذلک في شيء مطلقاً غیر مجرد قبول صحۃ النسبۃ بخلق اللہ تعالی فیہ صحۃ ذلک القبول، فانتفی مذہب القدریۃ القائلین بتأثیر قدرۃ العبد في الخیر والشر)، ملتقطاً.1۔۔۔۔۔۔ وفي ''الحدیقۃ الندیۃ''، ج ۱، ص۵۰۹: (أنّ علم اللہ تعالی بما یفعلہ العبد وإرادتہ لذلک، وکتبہ لہ في اللوح المحفوظ لیس بجبر للعبد علی فعلہ ذلک الذي فعلہ العبد باختیارہ وإرادتہ). وفیہا: (وذلک لأنّ علم اللہ تعالی وتقدیرہ لایخرجان العبد إلی حیز الاضطرار ولا یسلبان عنہ الاختیار). وانظر للتفصیل رسالۃ الإمام أھل السنۃ علیہ الرحمۃ: ''ثلج الصدر لإیمان القدر''، ج۲۹۔2۔۔۔۔۔۔ (مَا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ وَمَا أَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَفْسِکَ) پ۵، النسآء : ۷۹. (وَأَنَّا لَا نَدْرِی أَشَرٌّ أُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا) پ۲۹، الجن: ۱۰. وفي ''تفسیر ابن کثیر''، ج۸، ص ۲۵۳، تحت الآیۃ: (وھذا من أدبہم في العبارۃ حیث أسندوا الشر إلی غیر فاعل، والخیر أضافوہ إلی اللہ عز وجل۔ وقد ورد في الصحیح: ((والشرّ لیس إلیک)). وفي ''التفسیر الکبیر'' پ۱۶، الکہف، ج۷، ص۴۹۲۔۴۹۳، تحت الآیۃ: ۷۹۔۸۲: (بقي في الآیۃ سؤال، وہو أنّہ قال: (فَأَرَدْتُّ أَنْ أَعِیْبَہَا)، وقال: (فَأَرَدْنَا أَنْ یُّبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْراً مِّنْہُ زَکوٰۃً)، وقال: (فَأَرَادَ رَبُّکَ أَنْ یَبْلُغَا أَشُدَّہُمَا)، کیف اختلفت الإضافۃ في ہذہ الإرادات الثلاث وہي کلّہا في قصۃ واحدۃ وفعل واحد؟ والجواب: أنّہ لما ذکر العیب أضافہ إلی إرادۃ نفسہ فقال: أردت أن أعیبہا، ولما ذکر القتل عبر عن نفسہ بلفظ الجمع تنبیہاً علی أنّہ من العظماء في علوم الحکمۃ، فلم یقدم علی ھذا القتل إلاّ لحکمۃ عالیۃ، ولما ذکر رعایۃ مصالح الیتیمین لأجل صلاح أبیھما أضافہ إلی اللہ تعالی، لأنّ المتکفل بمصالح الأبناء لرعایۃ حق الآباء لیس إلاّ اللہ سبحانہ وتعالی). ''الحدیقۃ الندیۃ''، ج ۱ ، ص۵۰۹۔۵۱۰.3۔۔۔۔۔۔ في ''شعب الإیمان''، باب في الإیمان باللہ عزوجل، فصل في معرفۃ أسماء اللہ وصفاتہ، ج۱، ص۱۱۳: (وہو المتعالي عن الحدود والجہات، والأقطار، والغایات، المستغني عن الأماکن والأزمان، لا تنالہ الحاجات، ولا تمسّہ المنافع والمضرّات، ولا تلحقہ اللّذّات، ولا الدّواعي، ولا الشہوات، ولا یجوز علیہ شيء ممّا جاز علی المحدثات فدلّ علی حدوثہا، ومعناہ أنّہ لایجوز علیہ الحرکۃ ولا السکون، والاجتماع، والافتراق، والمحاذاۃ، والمقابلۃ، والمماسۃ، والمجاوزۃ، ولا قیام شيء حادث بہ ولا بطلان صفۃ أزلیۃ عنہ، ولا یصح علیہ العدم). =
P20
عقیدہ (۲۶): دنیا کی زندگی میں اﷲ عزوجل کا دیدار نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے(1) اور آخرت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ= وفي ''شرح المواقف''، المقصد الأول، ج۸، ص۲۲: (أنّہ تعالی لیس في جہۃ) من الجہات (ولا في مکان) من الأمکنۃ). وص ۳۱: ((أنّہ تعالی لیس في زمان) أي: لیس وجودہ وجوداً زمانیاً). ''شرح المقاصد''، ج۲، ص۲۷۰، : (طریقۃ أھل النسۃ أن العالم حادث والصانع قدیم متصف بصفات قدیمۃ لیست عینہ ولا غیرہ، وواحد لا شبۃ لہ ولا ضد ولا ند ولانہایۃ لہ ولا صورۃ ولا حد ولا یحل في شيء ولا یقوم بہ حادث ولا یصح علیہ الحرکۃ والانتقال ولا الجھل ولا الکذب ولا النقص وأنہ یری في الآخرۃ)۔ ترجمہ: اھل سنت وجماعت کا راستہ یہ ہے کہ بے شک عالم حادث ہے اور صانع عالم قدیم ایسی صفات قدیمہ سے متصف ہے جو نہ اس کا عین ہیں نہ غیر۔ وہ واحد ہے ، نہ اس کی کوئی مثل ہے نہ مقابل نہ شریک ، نہ انتہا ، نہ صورت ، نہ حد ، نہ وہ کسی میں حلول کرتا ہے ، نہ اس کے ساتھ کوئی حادث قائم ہوتا ہے، نہ اس پر حرکت صحیح ، نہ انتقال ، نہ جہالت ، نہ جھوٹ اور نہ نقص۔ اور بے شک آخرت میں اس کو دیکھا جائے گا ۔ ''شرح المقاصد''، المبحث الثامن من حکم المؤمن۔۔۔ 🔚
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 9.10
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
اور جو ہم نے حفظ کیا قدیم ہے(1)،..................................
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ قال الإمام أحمد رضا في ''المعتمد المستند''، ص۳۵: (وإنّما المذہب ما علیہ أئمۃ السلف أنّ کلام اللہ تعالی واحد لا تعدد فیہ أصلا، لم ینفصل ولن ینفصل عن الرحمن، ولم یحل في قلب ولا لسان، ولا أوراق ولا آذان، ومع ذلک لیس المحفوظ في صدورنا إلاّ ہو، ولا المتلو بأفواہنا إلاّ ہو، ولا المکتوب في مصاحفنا إلاّ ہو، ولا المسموع بأسماعنا إلاّ ہو، لا یحل لأحد أن یقول بحدوث المحفوظ المتلو المکتوب المسموع، إنّما الحادث نحن، وحفظنا، وألسننا، وتلاوتنا، وأیدینا، وکتابتنا، وآذاننا، وسماعتنا، والقرآن القدیم القائم بذاتہ تعالی ہو المتجلي علی قلوبنا بکسوۃ المفہوم، وألسنتنا بصورۃ المنطوق، ومصاحفنا بلباس المنقوش، وآذاننا بزيّ المسموع فہو المفہوم المنطوق المنقوش المسموع لا شيء آخر غیرہ دالاً علیہ، وذلک من دون أن یکون لہ انفصال عن اللہ سبحانہ وتعالی، أو اتصال بالحوادث أو حلول في شيء مما ذکر، وکیف یحلّ القدیم في الحادث، ولا وجود للحادث مع القدیم، إنّما الوجود للقدیم وللحادث منہ إضافۃ لتکریم، ومعلوم أنّ تعدد التجلي لا یقتضي تعدد المتجلي۔؎ دمبدم گر لباس گشت بدل شخص صاحب لباس راچہ خلل عرف ھذا من عرف، ومن لم یقدر علی فہمہ فعلیہ أن یؤمن بہ کما یؤمن باللہ وسائر صفاتہ من دون إدراک الکنہ). وقد فصل وحقق الإمام أحمد رضا ہذہ المسألۃ في رسالتہ: ''أنوار المنان في توحید القرآن''، وقال في آخرہ، ص۲۷۰۔۲۷۱: (وذلک قول أئمتنا السلف إنّ القرآن واحد حقیقي أزلي، وہو المتجلّي في جمیع المجالي، لیس علی قدمہ بحدوثہا أثر، ولا علی وحدتہ بکثرتہا ضرر، ولا لغیرہ فیہا عین ولا أثر، القراء ۃ والکتابۃ والحفظ والسمع والألسن والبنان والقلوب والآذان،کلہا حوادث عرضۃ للغیار، والمقروء المکتوب المحفوظ المسموع ہوالقرآن القدیم حقیقۃ وحقا لیس في الدار غیرہ دیّار، والعجب أنّہ لم یحل فیہا ولم تخل عنہ، ولم یتصل بہا ولم تبن منہ، وھذا ہو السر الذي لا یفہمہ إلاّ العارفون، (وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَآ إِلاَّ الْعَالِمُوْنَ) إنّ من العلم کہیأۃ المکنون لا یعلمہ إلاّ العلماء باللہ، فإذا نطقوا بہ لاینکرہ إلاّ أھل الغرۃ باللہ۔ رواہ في ''مسند الفردوس'' عن أبي ہریرۃ رضي اللہ تعالی عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم. والمسألۃ وإن کانت من أصعب ما یکون فلم آلُ بحمد اللہ تعالی جھداً في الإیضاح حتی آض بعونہ تعالی لیلہا کنہارہا، بل قد استغنیت عن المصباح بالإصباح. وبالجملۃ فاحفظ عنّي ھذا الحرف المبین ینفعک یوم لا ینفع مال ولابنون إلاّ من أتی اللہ بقلب سلیم، أنّک إن قلت إنّ جبریل حدث الآن بحدوث الفحل أو لم یزل فحلا مذ وجد فقد ضللت ضلالا مھینا، وإن قلت إنّ الفحل لم یکن جبریل بل شيء آخر علیہ دلیل فقد بھتّ بھتا مبینا، ولکن قل ہو جبریل قطعا تصور بہ، فکذا إن زعمت أنّ القرآن حدث بحدوث المکتوب أو المقروء أو لم یزل أصواتا ونقوشا من الأزل فقد أخطأت الحق بلا مریۃ، وإن زعمت أنّ
P10
یعنی متجلّی قدیم ہے اور تجلّی حادث۔ (1) عقیدہ (۱۹): اُس کا علم ہر شے کو محیط یعنی جزئیات، کلیات، موجودات، معدومات، ممکنات، مُحالات، سب کو اَزل میں جانتا تھا اور اب جانتا ہے اور اَبَد تک جانے گا، اشیاء بدلتی ہیں اور اُس کا علم نہیں بدلتا، دلوں کے خطروں اور وَسوسوں پر اُس کو خبر ہے اور اُس کے علم کی کوئی انتہا نہیں۔ (2) عقیدہ (۲۰): وہ غیب و شہادت (3) سب کو جانتا ہے (4)، علمِ ذاتی اُس کا خاصہ ہے، جو شخص علمِ ذاتی، غیب خواہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــالمکتوب المقروء لیس کلام اللہ الأزلي بل شيء غیرہ یؤدي مؤدّاہ فقد أعظمت الفریۃ، ولکن قل ہو القرآن حقا تطوّر بہ، وہکذا کلما اعتراک شبہۃ في ھذا المجال، فاعرضہا علی حدیث الفحل تنکشف لک جلیۃ الحال، وما التوفیق إلاّ باللہ المہیمن المتعال).1۔۔۔۔۔۔ متجلّی یعنی کلام الہی، قدیم ہے،اور تجلّی یعنی ھمارا پڑھنا،سننا، لکھنا ، یاد کرنا یہ سب حادث ہے۔2۔۔۔۔۔۔ (یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰـٰوتِ وَالْأَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ وَاللہُ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ) پ۲۸، التغابن: ۴🔚
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 11.12
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
شہادت کا غیرِ خدا کے لیے ثابت کرے کافر ہے۔(1) علمِ ذاتی کے یہ معنی کہ بے خدا کے دیے خود حاصل ہو۔ عقیدہ (۲۱) : وہی ہر شے کا خالق ہے(2) ، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اُسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔(3) عقیدہ (۲۲) : حقیقۃً روزی پہنچانے والا وہی ہے (4)، ملائکہ وغیر ہم و سائل و وسائط ہیں۔ (5) عقیدہ (۲۳) : ہر بھلائی، بُرائی اُس نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اورجو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اُس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمّہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ في ''الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ''، ص۳۹: (العلم ذاتي مختص بالمولی سبحانہ وتعالی لا یمکن لغیرہ، ومن أثبت شیأا منہ ولو أدنی من أدنی من أدنی من ذرۃ لأحد من العالمین فقد کفر وأشرک وبار وھلک)، ملتقطاً. انظر التفصیل: ''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۲۹، ص۴۳۶۔۴۳۷. 2۔۔۔۔۔۔ (اَللہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ) پ۱۳، الرعد: ۱۶. 3۔۔۔۔۔۔ (وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ) پ۲۳، الصآفات: ۹۶. في ''شرح العقائد النسفیۃ''، ص۷۶: (واللہ تعالی خالق لأفعال العباد من الکفر والإیمان والطاعۃ والعصیان). في ''الیواقیت''، ص۱۸۹: ( المبحث الرابع والعشرون: في أنّ اللہ تعالٰی خالق لأفعال العبد کما ہو خالق لذواتہم).4۔۔۔۔۔۔ (إِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ) پ۲۷، الذّٰریٰت: ۵۸.5۔۔۔۔۔۔ (فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا) پ۲۶، الذّٰریٰت: ۴. (فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا) پ۳۰، النازعات: ۵. في''تفسیر البغوي''، پ۳۰،تحت الآیۃ:۵ (فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا) قال ابن عباس: ہم الملائکۃ وکّلوا بأمور عرّفہم اللہ عزوجل العمل بہا. قال عبدالرحمن بن سابط:یدبرالأمر في الدنیا أربعۃ جبریل ومیکائیل وملک الموت وإسرافیل علیہم السلام، أمّا جبریل فموکل بالوحي والبطش وہزم الجیوش، وأمّا میکائیل فموکل بالمطر والنبات والأرزاق، وأمّا ملک الموت فموکل بقبض الأنفس، وأمّا إسرافیل فہو صاحب الصور، ولا ینزل إلاّ للأمر العظیم. ج۴، ص، ۴۱۱. وفي''کنزالعمال''، کتاب البیوع، قسم الأقوال، الجزء ۴، ص۱۳، الحدیث:۹۳۱۷: ((إنّ للہ تعالی ملائکۃ موکلین بأرزاق بنيآدم، ثم قال لہم: أیما عبد وجدتموہ جعل الہمّ ہمّا واحدًا، فضمنوا رزقہ السموات والأرض وبني آدم، وأیما عبد وجدتموہ طلبہ فإن تحری العدل فطیبوا لہ ویسروا، وإن تعدی إلی غیر ذلک فخلوا بینہ وبین ما یرید، ثم لا ینال فوق الدرجۃ التي کتبتہا لہ)).
P12
بھلائی لکھتا تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔ (1) تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس اُمت کا مجوس بتایا۔ (2) عقیدہ (۲۴): قضا تین ۳ قسم ہے۔ مُبرَمِ ۱ حقیقی، کہ علمِ الٰہی میں کسی شے پر معلّق نہیں۔ اور معلّقِ ۲ محض، کہ صُحفِ ملائکہ میں کسی شے پر اُس کا معلّق ہونا ظاہر فرما دیا گیا ہے۔ اور معلّقِ ۳ شبیہ بہ مُبرَم، کہ صُحف ِملائکہ میں اُس کی تعلیق مذکور نہیں اور علمِ الٰہی میں تعلیق ہے۔ وہ جو مُبرَمِ حقیقی ہے اُس کی تبدیل نا ممکن ہے، اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو اُنھیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے۔ (3) ملائکہ قومِ لوط پر عذاب لے کر آئے، سیّدنا ابراہیم خلیل اﷲ علی نبیّنا الکریم وعلیہ افضل الصّلاۃ والتسلیم کہ رحمتِمحضہ تھے، اُن کا نامِ پاک ہی ابراہیم ہے، یعنی ابِ رحیم(4) ، مہربان باپ، اُن کافروں کے بارے میں اتنے ساعی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ في '' الفقہ الأکبر''، ص۴۰: (وکان اللہ تعالی عالما في الأزل بالأشیاء قبل کونہا، وہو الذي قدّر الأشیاء وقضاہا). في''شرح النووي''، کتاب الإیمان، ج۱، ص۲۷: (واعلم : أنّ مذہب أھل الحق إثبات القدر ومعناہ: أنّ اللہ تبارک وتعالی قدّر الأشیاء في القدم وعلم سبحانہ أنّہا ستقع في أوقات معلومۃ عندہ سبحانہ وتعالی وعلی صفات مخصوصۃ فہي تقع علی حسب ما قدّرہا سبحانہ وتعالی ۔۔۔۔۔۔ واللہ سبحانہ وتعالی خالق الخیر والشرجمیعًا لا یکون شيء منھما إلاّ بمشیّتہ، فھما مضافان إلی اللہ سبحانہ وتعالی خلقًا وإیجادًا، 🔚
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 13.14
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
ہوئے کہ اپنے رب سے جھگڑنے لگے، اُن کا رب فرماتا ہے۔
( یُجَادِلُنَا فِیۡ قَوْمِ لُوۡطٍ ﴿ؕ۷۴﴾ (1)''ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں۔'' یہ قرآنِ عظیم نے اُن بے دینوں کا رَد فرمایا جو محبوبانِ خدا کی بارگاہِ عزت میں کوئی عزت و وجاہت نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اس کے حضور کوئی دَم نہیں مار سکتا، حالانکہ اُن کا رب عزوجل اُن کی وجاہت اپنی بارگاہ میں ظاہر فرمانے کو خود ان لفظوں سے ذکر فرماتا ہے کہ : ''ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں''، حدیث میں ہے: شب ِمعراج حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک آواز سنی کہ کوئی شخص اﷲ عزوجل کے ساتھ بہت تیزی اور بلند آواز سے گفتگو کر رہا ہے، حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جبریل امین علیہ الصلاۃ والسلام سے دریافت فرمایا :''کہ یہ کون ہیں؟ '' عرض کی موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام، فرمایا: ''کیا اپنے رب پر تیز ہو کر گفتگو کرتے ہیں؟'' عرض کی: اُن کا رب جانتا ہے کہ اُن کے مزاج میں تیزی ہے۔ (2) جب آیہ کریمہ (وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ) ـ3ـ
نازل ہوئی کہ ''بیشک عنقریب تمھیں تمھارا رب اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔'' حضور سیّدالمحبوبین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِذاً لاَّ أَرْضٰی وَوَاحِدٌ مِّنْ أُمَّتِيْ فِي النَّارِ)).(4)
''ایسا ہے تو میں راضی نہ ہوں گا، اگر میرا ایک اُمتی بھی آگ میں ہو۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــوکثیراً ما یقع الاتفاق بین السّریاني والعربي أو یقاربہ في اللفظ؛ ألا تری أنّ إبراہیم تفسیرہ: أب راحم؛ لرحمتہ بالأطفال، ولذلک جعل ہو وسارۃ زوجتہ کافلین لأطفال المؤمنین الذین یموتون صغاراً إلی یوم القیامۃ). و''تفسیر روح البیان''،ج۱، ص۲۲۱.1۔۔۔۔۔۔ پ۱۲، ھود: ۷۴. 2۔۔۔۔۔۔ عن عبد اللہ بن مسعود عن أبیہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((سمعت کلاماً في السمائ، فقلت: یا جبریل! من ھذا؟)) قال: ھذا موسی، قلت: ((ومن یناجي؟)) قال: ربہ تعالی، قلت: ((ویرفع صوتہ علی ربہ؟)) قال: إنّ اللہ عزوجل قد عرف لہ حدَّتَہ.''حلیۃ الأولیائ''، ج۱۰، ص۴۱۷، الحدیث: ۱۵۷۰۸. ''کنز العمال''، کتاب الفضائل، فضائل سائر الأنبیائ، رقم: ۳۲۳۸۵، ج۶، الجزء ۱۱، ص۲۳۲. ''فتح الباری''، کتاب مناقب الأنصار، باب المعراج، ج۷، ص۱۸۰، تحت الحدیث: ۳۸۸۷. 3۔۔۔۔۔۔ پ۳۰، الضحٰی: ۵.4۔۔۔۔۔۔ ''التفسیر الکبیر''، پ۳۰، الضحی: تحت الآیۃ: ۵، ج۱۱، ص۱۹۴.
P14
یہ تو شانیں بہت رفیع ہیں، جن پر رفعت عزت وجاہت ختم ہے۔ صلوات اﷲ تعالیٰ و سلامہ علیہم مسلمان ماں باپ کا کچّا بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے اُس کے لیے حدیث میں فرمایا: کہ ''روزِ قیامت اﷲ عزوجل سے اپنے ماں باپ کی بخشش کے لیے ایسا جھگڑے گا جیسا قرض خواہ کسی قرض دار سے، یہاں تک کہ فرمایا جائے گا:
((أَیُّـھَا السِّقْطُ المُرَاغِمُ رَبَّـہٗ)).(1)
''اے کچے بچے! اپنے رب سے جھگڑنے والے! اپنے ماں باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں چلا جا۔'' خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، مگر ایمان والوں کے لیے بہت نافع اور شیاطین الانس کی خبا ثت کا دافع تھا، کہنا یہ ہے کہ قومِ لوط پر عذاب قضائے مُبرَمِ حقیقی تھا، خلیل اﷲ علیہ الصّلاۃ والسلام اس میں جھگڑے تو اُنھیں ارشاد ہوا:
''اے ابراہیم! اس خیال میں نہ پڑو ... بیشک اُن پر وہ عذاب آنے والاہے جو پھرنے کا نہیں۔'' اور وہ جو ظاہر قضائے معلّق ہے، اس تک اکثر اولیا کی رسائی ہوتی ہے، اُن کی دُعا سے، اُن کی ہمّت سے ٹل جاتی ہے اور وہ جو متوسّط حالت میں ہے، جسے صُحف ِملائکہ کے اعتبا ر سے مُبرَم بھی کہہ سکتے ہیں، اُس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ حضور سیّدنا غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسی کو فرماتے ہیں: ''میں قضائے مُبرَم کو رد کر دیتا ہوں'' (3)، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ عن علي قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((إنّ السقط لیراغم ربہ إذا أدخل أبویہ النار، فیقال: أیہا السقط المراغم ربہ أدخل أبویک الجنۃ، فیجرھما بسررہ حتی یدخلھما الجنۃ)). قال أبو علي: یراغم ربہ، یغاضب. ''سنن ابن ماجہ''، أبواب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء فیمن أصیب بسقط، الحدیث: ۱۶۰۸، ج۲، ص۲۷۳. 2۔۔۔۔۔۔ ( یٰاِ بْرٰہِیمُ أَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا إِنَّہ، قَدْ جَآءَ أَمْرُ رَبِّکَ وَإِنَّہُمْ اٰتِیْہِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ) پ۱۲، ھود: ۷۶.3۔🔚
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 16
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی کی نسبت حدیث میں ارشاد ہوا:
((إِنَّ الدُّعَاءَ یَرُدُّ القَضَاءَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ)).(1)
''بیشک دُعا قضائے مُبرم کو ٹال دیتی ہے۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــکسی چیز سے بآسانی ٹل جائے، پس مجھے ایک قسم کی مایوسی ہوئی تو پیر دستگیر سید محی الدین قدس سرہ النورانی کا ارشاد دوبارہ یاد آگیا تو میں نے دوبارہ حق تعالی کی بارگاہ میں آہ وزاری اور عجزوانکساری کی تو مجھے محض فضل وکرم سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ قضائے معلق کی دو قسمیں ہیں ایک قسم قضائے معلق کی وہ ہے کہ اس کی تعلیق لوح محفوظ میں ظاہر کی گئی ہے اور فرشتگانِ الہی کو اس کی اطلاع دی گئی ہے اور دوسری قسم قضائے معلق کی وہ ہے کہ اس کی تعلیق خدائے بزرگ وبرتر کے نزدیک ہے اور لوح محفوظ میں وہ قضائے مبرم کی صورت رکھتی ہے،(در حقیقت یہ قسم نہ تو مطلق معلق ہے اور نہ مطلق مبرم بلکہ مشابہ بہ مبرم ہے جو کہ بظاہر لوح محفوظ میں مطلق نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں مشروط بشرط ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ خاصانِ خدا کی دعاؤں سے ٹل جاتی ہے، حاشیہ بر مکتوب بتصرف ما) اور یہ بھی قضائے معلق کی طرح تبدیلی کا احتمال رکھتی ہے۔ پس اس تقریر سے معلوم ہوا کہ حضرت پیر دستگیر علیہ الرحمہ کا ارشاد(میں قضائے مبرم کو رد کردیتا ہوں، مترجم) اس قسم اخیر(یعنی مشابہ بہ مبرم) کے بارے میں ہے نہ کہ مبرم حقیقی کے بارے میں، کیونکہ اس(مبرم حقیقی) میں تصرف وتبدیلی عقلی و شرعی لحاظ سے محال ہے، حق بات یہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں کہ جو اس قضاء(مشابہ بہ مبرم) کی خبر رکھتے ہیں اور کیونکر رکھ سکتے ہیں جبکہ اس میں تصرف نہیں ہوپاتا ، اور میرے دوست کو جو آزمائش پیش آئی تھی اسی کے سبب سے میں نے اس قسم کو دریافت کیا اور حضرت حق سبحانہ وتعالی نے اس فقیر کی دعا سے اس کی آزمائش کو دور کردیا۔ 1۔۔۔۔۔۔ ''کنز العمال''، کتاب الأذکار، ج۱، الجزء الثاني، ص۲۸، الحدیث:۳۱۱۷. بألفاظ متقاربۃ. قال الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن في ''المعتمد المستند'' حاشیہ نمبر ۷۷ ، ص۵۴ ۔۵۵: (أقول: أخرج أبو الشیخ في کتاب الثواب عن أنس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: ((أکثر من الدعائ، فإنّ الدعاء یردّ القضاء المبرم))، وأخرج الدیلمي في ''مسند الفردوس'' عن أبي موسی الأشعري رضي اللہ تعالی عنہ وابن عساکر عن نمیر بن أوس الأشعري مرسلًا کِلاھما عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((الدعاء جند من أجناد اللہ مجند یرد القضاء بعد أن یبرم)). وتحقیق المقام علی ما ألہمني الملک العلام أنّ الأحکام الإلہیۃ التشریعیۃ کما تأتي علی وجہین: (۱) مطلق عن التقیید بوقت کعامتہا و(۲) مقید بہ کقولہ تعالی: (فَإِنْ شَہِدُوْا فَأَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَہُنَّ سَبِیلْاً)، پ۴، النساء: ۱۵، فلما نزل حدّ الزنا قال صلّی اللہ تعالی علیہ وسلم: ((خذوا عنّي قد جعل اللہ لہنّ سبیلا).الحدیث. رواہ ''مسلم'' کتاب الحدود، باب حد الزنا، الحدیث: ۱۶
🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 18
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
مسئلہ (۱): قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے، ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سببِ ھلاکت ہے، صدیق وفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنھما اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے۔ (1) ما و شما (2) کس گنتی میں ...! اتنا سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے آدمی کو مثلِ پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس و حرکت نہیں پیدا کیا، بلکہ اس کو ایک نوعِ اختیار (3) دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے، بُرے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیے ہیں، کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسی قسم کے سامان مہیّا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اُس پر مؤاخذہ ہے۔ (4)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ عن ثوبان قال: اجتمع أربعون رجلاً من الصحابۃ ینظرون في القدر والجبر، فیہم أبو بکر وعمر رضي اللہ تعالی عنھما، فنزل الروح الأمین جبریل فقال: یا محمد! اخرج علی أمتک فقد أحدثوا، فخرج علیہم في ساعۃ لم یکن یخرج علیہم فیھا، فأنکروا ذلک منہ وخرج علیہم ملتمعا لونہ متوردۃ وجنتاہ کأنما تفقأ بحب الرمان الحامض، فنہضوا إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاسرین أذرعہم ترعد أکفہم و أذرعہم، فقالوا: تبنا إلی اللہ و رسولہ فقال: ((أولی لکم إن کدتم لتوجبون، أتاني الروح الأمین فقال: أخرج علی أمتک یا محمد فقد أحدثت)). رواہ الطبراني في ''المعجم الکبیر''، الحدیث: ۱۴۲۳، ج۲، ص۹۵. عن أبي ہریرۃ قال: خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر، فغضب حتی احمرّ وجہہ حتی کأنّما فقیء في وجنتیہ الرمان، فقال: ((أبھذا أمرتم أم بھذا أرسلت إلیکم؟ إنما ھلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ھذا الأمر، عزمت علیکم ألاّ تنازعوا فیہ)). ''سنن الترمذي''، کتاب القدر، باب ما جاء من التشدید... إلخ، الحدیث:۲۱۴۰، ج۴، ص۵۱.2۔۔۔۔۔۔ ہم اور آپ۔3۔۔۔۔۔۔ ایک طرح کا اختیار۔4۔۔۔۔۔۔ في ''منح الروض الأزہر''، ص۴۲۔۴۳: (فللعباد أفعال اختیاریۃ یثابون علیہا إن کانت طاعۃ، ویعاقبون علیہا إن کانت معصیۃ، لا کما زعمت الجبریۃ أن لا فعل للعبد أصلا کسبا ولا خلقا، وأنّ حرکاتہ بمنزلۃ حرکات الجمادات لا قدرۃَ لہ علیہا، لا مؤثرۃ، ولا کاسبۃ في مقام الاعتبار ولا قصد ولا إرادۃ ولا اختیار، وھذا باطل، لأنّا نفرق بین حرکۃ البطش وحرکۃ الرعش، ونعلم أنّ الأول باختیارہ دون الثاني لاضطرارہ). في ''الحدیقۃ الندیۃ''، ج۱،ص۲۶۲:(للعباد) المکلفین بالأمر والنہي(اختیارات لأفعالہم بہا، یثابون) أي: یثیبہم اللہ تعالی یوم القیامۃ علی ما صدر منھم من الخیر مما خلقہ اللہ تعالی منسوبا إلیہم بسبب خلق اللہ تعالی إرادتہم لہ، (علیہا)، أي: لأجل تلک الاختیارات، (یعاقبون) أي: یعاقبہم اللہ تعالی یوم القیامۃ حیث صدر منھم بہا أفعالا من الشر خلقہا تعالی لہم منسوبۃ إلیہم بسبب خلقہ إرادتہم لہا وحیث ثبت أنّ للإنسان اختیارا خلقہ اللہ تعالی فیہ، فقد انتفی مذہب الجبریۃ القائلین بأن الإنسان مجبور علی فعل الخیر والشر، ثم إنّ ذلک الاختیار الذي خلقہ اللہ تعالی في الإنسان بخلق اللہ تعالی عندہ لا بہ، ولا فیہ، ولا منہ أفعال الخیر والشر، فینسبہا للإنسان فیکون اختیار الإنسان المخلوق فیہ بمنزلۃ یدہ المخلوقۃ لہ بحیث لا تأثیر🔚
🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 19.20
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا، دونوں گمراہی ہیں۔ (1) مسئلہ (۲): بُرا کام کرکے تقدیرکی طرف نسبت کرنا اور مشیتِالٰہی کے حوالہ کرنا بہت بُری بات ہے ، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے، اسے منجانب اﷲ کہے اور جو برائی سر زد ہو اُس کو شامتِ نفس تصوّر کرے۔ (2) عقیدہ (۲۵): اﷲ تعالیٰ جہت ومکا ن و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔ (3)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــلذلک في شيء مطلقاً غیر مجرد قبول صحۃ النسبۃ بخلق اللہ تعالی فیہ صحۃ ذلک القبول، فانتفی مذہب القدریۃ القائلین بتأثیر قدرۃ العبد في الخیر والشر)، ملتقطاً.1۔۔۔۔۔۔ وفي ''الحدیقۃ الندیۃ''، ج ۱، ص۵۰۹: (أنّ علم اللہ تعالی بما یفعلہ العبد وإرادتہ لذلک، وکتبہ لہ في اللوح المحفوظ لیس بجبر للعبد علی فعلہ ذلک الذي فعلہ العبد باختیارہ وإرادتہ). وفیہا: (وذلک لأنّ علم اللہ تعالی وتقدیرہ لایخرجان العبد إلی حیز الاضطرار ولا یسلبان عنہ الاختیار). وانظر للتفصیل رسالۃ الإمام أھل السنۃ علیہ الرحمۃ: ''ثلج الصدر لإیمان القدر''، ج۲۹۔2۔۔۔۔۔۔ (مَا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ وَمَا أَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَفْسِکَ) پ۵، النسآء : ۷۹. (وَأَنَّا لَا نَدْرِی أَشَرٌّ أُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا) پ۲۹، الجن: ۱۰. وفي ''تفسیر ابن کثیر''، ج۸، ص ۲۵۳، تحت الآیۃ: (وھذا من أدبہم في العبارۃ حیث أسندوا الشر إلی غیر فاعل، والخیر أضافوہ إلی اللہ عز وجل۔ وقد ورد في الصحیح: ((والشرّ لیس إلیک)). وفي ''التفسیر الکبیر'' پ۱۶، الکہف، ج۷، ص۴۹۲۔۴۹۳، تحت الآیۃ: ۷۹۔۸۲: (بقي في الآیۃ سؤال، وہو أنّہ قال: (فَأَرَدْتُّ أَنْ أَعِیْبَہَا)، وقال: (فَأَرَدْنَا أَنْ یُّبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْراً مِّنْہُ زَکوٰۃً)، وقال: (فَأَرَادَ رَبُّکَ أَنْ یَبْلُغَا أَشُدَّہُمَا)، کیف اختلفت الإضافۃ في ہذہ الإرادات الثلاث وہي کلّہا في قصۃ واحدۃ وفعل واحد؟ والجواب: أنّہ لما ذکر العیب أضافہ إلی إرادۃ نفسہ فقال: أردت أن أعیبہا، ولما ذکر القتل عبر عن نفسہ بلفظ الجمع تنبیہاً علی أنّہ من العظماء في علوم الحکمۃ، فلم یقدم علی ھذا القتل إلاّ لحکمۃ عالیۃ، ولما ذکر رعایۃ مصالح الیتیمین لأجل صلاح أبیھما أضافہ إلی اللہ تعالی، لأنّ المتکفل بمصالح الأبناء لرعایۃ حق الآباء لیس إلاّ اللہ سبحانہ وتعالی). ''الحدیقۃ الندیۃ''، ج ۱ ، ص۵۰۹۔۵۱۰.3۔۔۔۔۔۔ في ''شعب الإیمان''، باب في الإیمان باللہ عزوجل، فصل في معرفۃ أسماء اللہ وصفاتہ، ج۱، ص۱۱۳: (وہو المتعالي عن الحدود والجہات، والأقطار، والغایات، المستغني عن الأماکن والأزمان، لا تنالہ الحاجات، ولا تمسّہ المنافع والمضرّات، ولا تلحقہ اللّذّات، ولا الدّواعي، ولا الشہوات، ولا یجوز علیہ شيء ممّا جاز علی المحدثات فدلّ علی حدوثہا، ومعناہ أنّہ لایجوز علیہ الحرکۃ ولا السکون، والاجتماع، والافتراق، والمحاذاۃ، والمقابلۃ، والمماسۃ، والمجاوزۃ، ولا قیام شيء حادث بہ ولا بطلان صفۃ أزلیۃ عنہ، ولا یصح علیہ العدم). =
P20
عقیدہ (۲۶): دنیا کی زندگی میں اﷲ عزوجل کا دیدار نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے(1) اور آخرت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ= وفي ''شرح المواقف''، المقصد الأول، ج۸، ص۲۲: (أنّہ تعالی لیس في جہۃ) من الجہات (ولا في مکان) من الأمکنۃ). وص ۳۱: ((أنّہ تعالی لیس في زمان) أي: لیس وجودہ وجوداً زمانیاً). ''شرح المقاصد''، ج۲، ص۲۷۰، : (طریقۃ أھل النسۃ أن العالم حادث والصانع قدیم متصف بصفات قدیمۃ لیست عینہ ولا غیرہ، وواحد لا شبۃ لہ ولا ضد ولا ند ولانہایۃ لہ ولا صورۃ ولا حد ولا یحل في شيء ولا یقوم بہ حادث ولا یصح علیہ الحرکۃ والانتقال ولا الجھل ولا الکذب ولا النقص وأنہ یری في الآخرۃ)۔ ترجمہ: اھل سنت وجماعت کا راستہ یہ ہے کہ بے شک عالم حادث ہے اور صانع عالم قدیم ایسی صفات قدیمہ سے متصف ہے جو نہ اس کا عین ہیں نہ غیر۔ وہ واحد ہے ، نہ اس کی کوئی مثل ہے نہ مقابل نہ شریک ، نہ انتہا ، نہ صورت ، نہ حد ، نہ وہ کسی میں حلول کرتا ہے ، نہ اس کے ساتھ کوئی حادث قائم ہوتا ہے، نہ اس پر حرکت صحیح ، نہ انتقال ، نہ جہالت ، نہ جھوٹ اور نہ نقص۔ اور بے شک آخرت میں اس کو دیکھا جائے گا ۔ ''شرح المقاصد''، المبحث الثامن من حکم المؤمن۔۔۔ 🔚
🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 21.22
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
عقیدہ (۲۶): دنیا کی زندگی میں اﷲ عزوجل کا دیدار نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے(1) اور آخرت میں ہر سُنّی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع۔ (1) رہا قلبی دیدار یا خواب میں، یہ دیگر انبیا علیہم السلام بلکہ اولیا کے لیے بھی حاصل ہے۔(2) ھمارے امامِ اعظم (3) رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خواب میں سو ۱۰۰ بار زیارت ہوئی۔ (4) عقیدہ (۲۷): اس کا دیدار بلا کیف ہے، یعنی دیکھیں گے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے، جس چیز کو دیکھتے ہیں اُس سے کچھ فاصلہ مسافت کا ہوتا ہے، نزدیک یا دور، وہ دیکھنے والے سے کسی جہت میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے، دہنے یا بائیں، آگے یا پیچھے، اُس کا دیکھنا اِن سب باتوں سے پاک ہوگا۔(5) پھر رہا یہ کہ کیونکر ہوگا؟ یہی تو کہا جاتا ہے کہ کیونکر کو یہاں دخل
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ (وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) پ۲۹، القیامۃ: ۲۲۔۲۳.عن أبي ہریرۃ، أنّ الناس قالوا: یا رسول اللہ! ھل نری ربنا یوم القیامۃ؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:((ھل تضارون في القمر لیلۃ البدر؟)) قالوا: لا یا رسول اللہ، قال: ((فھل تضارون في الشمس لیس دونہا سحاب؟)) قالوا:لا یا رسول اللہ، قال: ((فإنکم ترونہ کذلک)). ''صحیح البخاري''، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالٰی (وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ... إلخ) الحدیث: ۷۴۳۷، ج۴، ص۵۵۱. في ''الفقہ الأکبر''، ص۸۳: (واللہ یری في الآخرۃ، ویراہ المؤمنون وہم في الجنۃ بأعین رؤوسہم). وفي''شرح النووي'': (اعلم أنّ مذہب أھل السنۃ بأجمعہم أنّ رؤیۃ اللہ تعالی ممکنۃ غیر مستحیلۃ عقلا، وأجمعوا أیضا علی وقوعہا في الآخرۃ، وأنّ المؤمنین یرون اللہ تعالی دون الکافرین، وزعمت طوائف من أھل البدع:المعتزلۃ والخوارج وبعض المرجئۃ، أنّ اللہ تعالی لا یراہ أحد من خلقہ، وأنّ رؤیتہ مستحیلۃ عقلا، وھذا الذی قالوہ خطأ صریح وجھل قبیح، وقد تظاہرت أدلۃ الکتاب والسنۃ وإجماع الصحابۃ فمن بعدہم من سلف الأمۃ علی إثبات رؤیۃ اللہ تعالی في الآخرۃ للمؤمنین، ورواہا نحو من عشرین صحابیا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وآیات القرآن فیہا مشہورۃ).(''شرح النووي''، کتاب الإیمان، باب إثبات رؤیۃ المؤمنین في الآخرۃ ربہم سبحانہ وتعالی: ج۱، ص۹۹).2۔۔۔۔۔۔ وفي ''المعتقد المنتقد''، ص۵۸: (وأمّا رؤیاہ سبحانہ في المنام۔۔۔۔۔۔ جاءزۃ عند الجمھور، لأنّہا نوع مشاھدۃ بالقلب، ولا استحالۃ فیہ، وواقعۃ کما حکیت عن کثیر من السلف منھم أبو حنیفۃ وأحمد بن حنبل رضي اللہ تعالی عنھما، وذکر القاضي الإجماع علی أنّ رؤیتہ تعالی مناماً جاءزۃ وإن کان بوصف لا یلیق بہ تعالی)، ملتقطاً.3۔۔۔۔۔۔ ابو حنیفہ نعمان بن ثابت۔ 4۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر''، ص۱۲۴:(رؤیۃ اللہ سبحانہ وتعالی في المنام، فالأکثرون علی جوازہا من غیر کیفیۃ وجہۃ وہیئۃ أیضا في ھذا المرام، فقد نقل أنّ الإمام أبا حنیفۃ قال: رأیت رب العزۃ في المنام تسعاً وتسعین مرۃ، ثم رآہ مرۃ أخری تمام المائۃ و قصتہا طویلۃ لا یسعہا ھذا المقام).5۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر''، ص۸۳: (واللہ یری في الآخرۃ)أي: یوم القیامۃ، (ویراہ المؤمنون وہم في الجنۃ بأعین رؤوسہم بلا تشبیہ) أي: رؤیۃ مقرونۃ بتنزیہ لا مکنونۃ بتشبیہ (ولا کیفیۃ) أي: في الصورۃ (ولا کمیۃ) أي: في الہیئۃ المنظورۃ
P22
نہیں، اِن شاء اﷲ تعالیٰ جب دیکھیں گے اُس وقت بتا دیں گے۔ اس کی سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک عقل پہنچتی ہے، وہ خدا نہیں اور جو خدا ہے، اُس تک عقل رسا نہیں، اور وقتِ دیدار نگاہ اُس کا اِحاطہ کرے، یہ محال ہے۔(1) عقیدہ (۲۸): وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، کسی کو اُس پر قابو نہیں(2) اور نہ کوئی اُس کے ارادے سے اُسے باز رکھنے والا۔ (3) اُس کو نہ اُونگھ آئے نہ نیند(4)، تمام جہان کا نگاہ رکھنے والا (5)، نہ تھکے، نہ اُکتائے (6)، تمام عالم کا پالنے والا (7)،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (ولا یکون بینہ وبین خلقہ مسافۃ) أي: لا في غایۃ من القرب ولا في نہایۃ من البعد، ولا یوصف بالاتصال ولا بنعت الانفصال ولا بالحلول والاتحاد کما یقولہ الوجودیۃ المائلون إلی الاتحاد، فذات رؤیتہ ثابت بالکتاب والسنۃ إلاّ أنّہا متشابہۃ من حیث الجہۃ والکمیۃ والکیفیۃ، فنثبت ما أثبتہ النقل و ننفي عنہ ما نزّہہ العقل، کما أشار إلی ھذا المعنی قولہ تعالی:(لا تُدْرِکُہُ الأبْصَار🔚
🏁Barelvi Network Ⓜ️
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 23.24
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
الّٰله (عزوجل)ماں باپ سے زیادہ مہربان، حلم والا۔ (1) اُسی کی رحمت ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا (2)، اُسی کے لیے بڑائی اور عظمت ہے۔ (3) ماؤں کے پیٹ میں جیسی چاہے صورت بنانے والا (4)، گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، قہر و غضب فرمانے والا (5)، اُس کی پکڑ نہایت سخت ہے ، جس سے بے اُس کے چھڑائے کوئی چھوٹ نہیں سکتا۔(6) وہ چاہے تو چھوٹی چیز کو وسیع کر دے اور وسیع کو سمیٹ دے ، جس کو چاہے بلند کر دے اور جس کو چاہے پست، ذلیل کو عزت دیدے اور عزت والے کو ذلیل کر دے (7)، جس کو چاہے راہِ راست پر لائے اور جس کو چاہے سیدھی راہ سے الگ کر دے (8)، جسے چاہے اپنا نزدیک بنالے اور جسے چاہے مردود کر دے، جسے جو چاہے دے اور جو چاہے چھین لے(9)، وہ جو کچھ کرتا ہے یا کریگا عدل وانصاف ہے ، ظلم سے پاک و صاف ہے (10)،
1۔۔۔۔۔۔ (اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ) پ۱، الفاتحۃ: ۲. (إِنَّہ، کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا) پ۲۲، الفاطر: ۴۱۔ عن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ قدم علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم سبي، فإذا امرأۃ من السبي قد تحلب ثدیہا تسقي، إذا وجدت صبیا في السبي أخذتہ، فألصقتہ ببطنہا وأرضعتہ، فقال لنا النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ((أترون ہذہ طارحۃ ولدہا في النار؟)) قلنا: لا، وہي تقدر علی أن لا تطرحہ، فقال: ((لَلّٰہُ أرحم بعبادہ من ہذہ بولدہا)). ''صحیح البخاري''، کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، الحدیث: ۵۹۹۹، ج۴، ص۱۰۰.2۔۔۔۔۔۔ فقال علیہ الصلوۃ والسلام حاکیاً عنہ سبحانہ: ((أنا عند المنکسرۃ قلوبہم لأجلي)). ''التفسیر الکبیر''، ج۱، ص۴۳۰، تحت الآیۃ: ۳۴. 3۔۔۔۔۔۔ (وَہُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ) پ۳، البقرۃ: ۲۵۵. 4۔۔۔۔۔۔ (ہُوَالَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآءُ) پ۳، اٰلِ عمرٰن: ۶. 5۔۔۔۔۔۔ (غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَابِ) پ۲۴، المؤمن: ۳. 6۔۔۔۔۔۔ (اِنَّ اَخْذَہ، اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ) پ۱۲، ھود: ۱۰۲. (اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ) پ۳۰، البروج: ۱۲.7۔۔۔۔۔۔ (وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ) پ۳، اٰلِ عمرٰن: ۲۶.8۔۔۔۔۔۔ (اِنَّ اللہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآء ُ وَیَہْدِي مَن یَّشَآءُ) پ۲۲، الفاطر: ۸. (وَمَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَـہ، مِنْ ہَادٍ وَمَنْ یَّہْدِ اللہُ فَمَا لَـہ، مِنْ مُّضِلٍّ) پ۲۴، الزمر: ۳۶۔۳۷.9۔۔۔۔۔۔ (قُلِ اللّٰہُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ). پ۳، اٰل عمرٰن: ۲۶.J۔۔۔۔۔۔ (إِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ) پ۵، النسآء
P24
نہایت بلند و بالا ہے (1)، وہ سب کو محیط ہے(2) اُس کا کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا(3)، نفع و ضرر اُسی کے ہاتھ میں ہیں(4)، مظلوم کی فریاد کو پہنچتا(5) اور ظالم سے بدلا لیتا ہے(6)، اُس کی مشیت اور اِرادہ کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا (7)، مگر اچھے پر خوش ہوتا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (إِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّلٰـکِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ) پ۱۱، یونس: ۴۴. (وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ) پ۲۶، ق:۲۹. في''تفسیر الطبري''، ج۱۱،ص۴۲۵، تحت الآیۃ: (قولہ: (وَمَا أَنَا بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیدِ) یقول: ولا أنا بمعاقب أحدًا من خلقي بجرم غیرہ، ولاحامل علی أحد منھم ذنب غیرہ فمعذّبہ بہ)۔1۔۔۔۔۔۔ (وَہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ) پ۲۲، سبأ: ۲۳.2۔۔۔۔۔۔ (أَلَا إِنَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ مُحِیطٌ) پ۲۵، حمۤ السجدۃ: ۵۴.3۔۔۔۔۔۔ (لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْأَبْصَارَ) پ۷، الانعام: ۱۰۳. 4۔۔۔۔۔۔ (وَإِنْ یَّمْسَسْکَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗ إِلاَّ ہُوَ وَإِنْ یَمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ) پ۷، الأنعام: ۱۷. ( وَإِنْ یَّمْسَسْکَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَـہ، إِلاَّ ہُوَ وَإِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِہٖ) پ۱۰، یونس: ۱۰۷.5۔۔۔۔۔۔ وفي ''سنن الترمذي''، أحادیث شتی، باب فی العفو والعافیۃ، ج۵، ص ۳۴۳، الحدیث: ۳۶۰۹: عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((ثلاثۃ لا ترد دعوتہم الصائم حتی یفطر والإمام العادل ودعوۃ المظلوم یرفعہا اللہ فوق الغمام ویفتح لہا أبواب السماء ویقول الرب: وعزتی لأنصرنک ولو بعد حین))۔ و''سنن ابن ماجہ''، کتاب الصیام، باب: فی: الصائم لا تردّ دعوتہ، ج ۲، ص۳۴۹🔚
🏁Barelvi Network Ⓜ️
🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 25.26
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
اور بُرے سے ناراض، اُس کی رحمت ہے کہ ایسے کام کا حکم نہیں فرماتا جو طاقت سے باہر ہے۔ (1) اﷲ عزوجل پر ثواب یا عذاب یا بندے کے ساتھ لطف یا اُس کے ساتھ وہ کرنا جو اُس کے حق میں بہتر ہو اُس پر کچھ واجب نہیں۔ مالک علی الاطلاق ہے، جو چاہے کرے اور جو چاہے حکم دے(2)، ہاں! اُس نے اپنے کرم سے وعدہ فرما لیا ہے کہ مسلمانوں کوجنت میں داخل فرمائے گا اور بمقتضائے عدل کفّار کو جہنم میں (3)، اور اُس کے وعدہ و وعید بدلتے نہیں (4)، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــیَفْعَلُ مَا یَشَاءُ) [الحج: ۱۸]، وقال عزوجل: (وَمَنْ یُّرِدْ أَنْ یُّضِلَّہ، یَجْعَلْ صَدْرَہُ ضَیِّقًا حَرَجًا) [الأنعام: ۱۲۵]). انظر للتفصیل : ''التفسیر الکبیر''،ج۲، ص۵۲۹، تحت الآیۃ: ۲۵۳: (احتج القائلون بأن کل الحوادث بقضاء اللہ وقدرہ.... إلخ). وفي ''المسامرۃ'' بشرح ''المسایرۃ''، ص۱۳۰: (أنّ فعل العبد وإن کان کسباً لہ فہو) واقع (بمشیئۃ اللہ) تعالی (وإرادتہ). وفي''منح الروض الأزہر''، ص۴۱: (ولا یکون في الدنیا ولا في الآخرۃ شيء إلاّ بمشیئتہ) أي: مقروناً بإرادتہ. 1۔۔۔۔۔۔ (لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَہَا) پ۳، البقرۃ: ۲۸۶.2۔۔۔۔۔۔ في ''الحدیقۃ الندیۃ'' شرح ''الطریقۃ المحمدیۃ''، ج۱، ص۲۴۹: (ولا یجب) أي: لا یلزم (علیہ) تعالی (شيئ) لغیرہ سبحانہ من ثواب أو عقاب أو فعل صلاح أو أصلح أو فساد أو أفسد بل ہو الفاعل العدل المختار، ویخلق اللہ ما یشاء ویختار، وفي ''شرح الطوالع'' للإصفہاني: وأمّا أصحابنا فقالوا: الثواب علی الطاعۃ فضل من اللہ تعالی والعقاب علی المعصیۃ عدل منہ تعالی، وعمل الطاعۃ دلیل علی حصول الثواب وفعل المعصیۃ علامۃ العقاب، ولا یکون الثواب علی الطاعۃ واجباً علی اللہ تعالی ولا العقاب علی المعصیۃ؛ لأنّہ لا یجب علی اللہ شيئ، وکلّ میسر لما خلق لہ فالمطیع موفق میسر لما خلق لہ وہو الطاعۃ، والعاصي میسر لما خلق لہ وہوالمعصیۃ ولیس للعبد في ذلک تأثیر). 3۔۔۔۔۔۔ (فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ) پ۳۰، البروج: ۱۶. في''حاشیۃ الصاوي''، پ۳۰، البروج:تحت الآیۃ: ۱۶(قولہ: (فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ) أتی بصیغۃ (فَعَّالٌ) إشارۃ للکثرۃ، والمعنی: یفعل ما یرید، ولا یعترض علیہ ولا یغلبہ غالب، فیدخل أولیاء الجنۃ لا یمنعہ مانع، ویدخل أعداء ہ النار لا ینصرہم منہ ناصر، وفي ہذہ الآیۃ دلیل علی أنّ جمیع أفعال العباد مخلوقۃ للہ تعالی، ولا یجب علیہ شيئ، لأنّ أفعالہ بحسب إرادتہ). ج۶، ص۲۳۴۲.4۔۔۔۔۔۔ ( لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللہِ) پ۱۱، یونس: ۶۴. (مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ) پ۲۶، ق: ۲۹. في ''تفسیر روح البیان''، پ۲۶، ق: ۲۹، ج۹، ص۱۲۵، تحت الآیۃ: ((مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ) أي: لا یغیر قولي في الوعد والوعید). وفي ''تفسیر ابن کثیر''، پ۱۱، یونس، تحت الآیۃ:۶۴: (قولہ: (لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللہِ) أي: ھذا الوعد لا یبدل ولا یخلف ولا یغیر بل ہو مقرر مثبت کائن لا محالۃ). ج۴، ص۲۴۵. =
P26
اُس نے وعدہ فرمالیا ہے کہ کفر کے سوا ہر چھوٹے بڑے گناہ کو جسے چاہے معاف فرمادے گا۔(1) عقیدہ (۲۹): اُس کے ہر فعل میں کثیر حکمتیں ہیں، خواہ ہم کو معلوم ہوں یا نہ ہوں اور اُس کے فعل کے لیے غرض نہیں، کہ غرض اُس فائدہ کو کہتے ہیں جو فاعل کی طرف رجوع کرے، نہ اُس کے فعل کے لیے غایت، کہ غایت کا حاصل بھی وہی غرض ہے اور نہ اُس کے افعال علّت و سبب کے محتاج، اُس نے اپنی حکمتِ بالغہ کے مطابق عالَمِ اسباب میں مسبّبات کو اسباب سے ربط فرمادیا ہے(2)، آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتا ہے، آ گ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے، وہ چاہے تو آنکھ سُنے، کان دیکھے، پانی جلائے، آگ پیاس بجھائے، نہ چاہے تو لاکھ آنکھیں ہوں دن کو پہاڑ نہ سُوجھے، کروڑآگیں ہوں ایک تنکے پر داغ نہ آئے۔ (3) کس قہر کی آگ تھی جس میں ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو کافروں نے ڈالا...! کوئی پاس نہ جا سکتا تھا، گوپھن میں رکھ کر پھینکا، جب آگ کے مقابل پہنچے، جبریلِ امین علیہ الصلاۃ والسلام حاضر ہوئے اور عرض کی: ابراہیم کچھ حاجت ہے؟ فرمایا: ہے مگر نہ تم سے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
= وفي ''تفسیر الطبري''، تحت الآیۃ: ۶۴: (وأمّا قولہ: (لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللہِ)، فإنّ معناہ: أنّ اللہ تعالی لا خُلف لوعدہ، ولا تغییر لقولہ🔚
🏁Barelvi Network Ⓜ️
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 27.
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
عرض کی: پھر اُسی سے کہیے جس سے حاجت ہے، فرمایا:
''عِلْمُہٗ بِحَالِيْ کَفَانِي عَنْ سُؤَالِيْ''.(1)
اظہارِ احتیاج خود آنجاچہ حاجت ست۔ (2) ارشاد ہوا:
(یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾ ) ـ3ـ
''اے آگ! ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا ابراہیم پر۔'' اس ارشاد کو سُن کر روئے زمین پر جتنی آگیں تھیں سب ٹھنڈی ہوگئیں کہ شاید مجھی سے فرمایا جاتا ہو(4) اور یہ تو ایسی ٹھنڈی ہوئی کہ علما فرماتے ہیں کہ اگر اس کے ساتھ (وَسَلٰمًا) کا لفظ نہ فرما دیا جاتا کہ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا تو اتنی ٹھنڈی ہو جاتی کہ اُس کی ٹھنڈک ایذا دیتی۔(5)
1۔۔۔۔۔۔ ''ملفوظات ''، حصہ ۴، ص ۴۶۲ ۔ یعنی: اس کا میرے حال کو جاننا یہی مجھے کفایت کرتا ہے میرے سوال کرنے سے ۔2۔۔۔۔۔۔ اپنی حاجت کے اِظہار کی وہاں کیا حاجت ہے! 3۔۔۔۔۔۔ پ۱۷، الأنبیآء : ۶۹. 4۔۔۔۔۔۔ في ''التفسیر الکبیر''، پ۱۷، الأنبیاء، ج۸، ص۱۵۸، تحت الآیۃ: ۶۹: (أمّا کیفیۃ القصۃ فقال مقاتل: لما اجتمع نمروذ وقومہ لإحراق إبراہیم حبسوہ في بیت وبنوا بنیاناً کالحظیرۃ ، وذلک قولہ: (قَالُوْا ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَانًا فَأَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ)، ثم جمعوا لہ الحطب الکثیر حتی إئنّ المرأۃ لو مرضت قالت: إن عافاني اللہ لأجعلن حطباً لإبراہیم، ونقلوا لہ الحطب علی الدواب أربعین یوماً، فلما اشتعلت النار اشتدت وصار الہواء بحیث لو مر الطیر في أقصی الہواء لاحترق، ثم أخذوا إبراہیم علیہ السلام ورفعوہ علی رأس البنیان وقیدوہ، ثم اتخذوا منجنیقاً ووضعوہ فیہ مقیداً مغلولاً، فصاحت السماء والأرض ومن فیہا من الملائکۃ إلاّ الثقلین صیحۃ واحدۃ۔۔۔۔۔۔، فلمّا أرادوا إلقاء ہ في النار۔۔۔۔۔۔، وضعوہ في المنجنیق ورموا بہ النار، فأتاہ جبریل علیہ السلام وقال: یا إبراہیم ھل لک حاجۃ، قال: أما إلیک فلا؟ قال: فاسأل ربک، قال: حسبي من سؤالي، علمہ بحالي، فقال اللہ تعالی: (یٰـنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلَی إِبْرَاہِیْمَ)۔۔۔۔۔۔ قال: ولم یبق یومئذ في الدنیا نار إلاّ طفئت)، ملتقطاً.5۔۔۔۔۔۔ في ''تفسیر ابن کثیر''، پ۱۷، الأنبیآء، ج۵، ص۳۰۹، تحت الآیۃ:۶۹،(قال ابن عباس، وأبو العالیۃ: لولا أنّ اللہ عزوجل قال: (وَّسَلٰمًا) لآذی إبراہیمَ بَرْدُہا).🔚
🏁Barelvi Network Ⓜ️
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 21.22
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
عقیدہ (۲۶): دنیا کی زندگی میں اﷲ عزوجل کا دیدار نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے(1) اور آخرت میں ہر سُنّی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع۔ (1) رہا قلبی دیدار یا خواب میں، یہ دیگر انبیا علیہم السلام بلکہ اولیا کے لیے بھی حاصل ہے۔(2) ھمارے امامِ اعظم (3) رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خواب میں سو ۱۰۰ بار زیارت ہوئی۔ (4) عقیدہ (۲۷): اس کا دیدار بلا کیف ہے، یعنی دیکھیں گے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے، جس چیز کو دیکھتے ہیں اُس سے کچھ فاصلہ مسافت کا ہوتا ہے، نزدیک یا دور، وہ دیکھنے والے سے کسی جہت میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے، دہنے یا بائیں، آگے یا پیچھے، اُس کا دیکھنا اِن سب باتوں سے پاک ہوگا۔(5) پھر رہا یہ کہ کیونکر ہوگا؟ یہی تو کہا جاتا ہے کہ کیونکر کو یہاں دخل
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1۔۔۔۔۔۔ (وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) پ۲۹، القیامۃ: ۲۲۔۲۳.عن أبي ہریرۃ، أنّ الناس قالوا: یا رسول اللہ! ھل نری ربنا یوم القیامۃ؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:((ھل تضارون في القمر لیلۃ البدر؟)) قالوا: لا یا رسول اللہ، قال: ((فھل تضارون في الشمس لیس دونہا سحاب؟)) قالوا:لا یا رسول اللہ، قال: ((فإنکم ترونہ کذلک)). ''صحیح البخاري''، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالٰی (وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ... إلخ) الحدیث: ۷۴۳۷، ج۴، ص۵۵۱. في ''الفقہ الأکبر''، ص۸۳: (واللہ یری في الآخرۃ، ویراہ المؤمنون وہم في الجنۃ بأعین رؤوسہم). وفي''شرح النووي'': (اعلم أنّ مذہب أھل السنۃ بأجمعہم أنّ رؤیۃ اللہ تعالی ممکنۃ غیر مستحیلۃ عقلا، وأجمعوا أیضا علی وقوعہا في الآخرۃ، وأنّ المؤمنین یرون اللہ تعالی دون الکافرین، وزعمت طوائف من أھل البدع:المعتزلۃ والخوارج وبعض المرجئۃ، أنّ اللہ تعالی لا یراہ أحد من خلقہ، وأنّ رؤیتہ مستحیلۃ عقلا، وھذا الذی قالوہ خطأ صریح وجھل قبیح، وقد تظاہرت أدلۃ الکتاب والسنۃ وإجماع الصحابۃ فمن بعدہم من سلف الأمۃ علی إثبات رؤیۃ اللہ تعالی في الآخرۃ للمؤمنین، ورواہا نحو من عشرین صحابیا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وآیات القرآن فیہا مشہورۃ).(''شرح النووي''، کتاب الإیمان، باب إثبات رؤیۃ المؤمنین في الآخرۃ ربہم سبحانہ وتعالی: ج۱، ص۹۹).2۔۔۔۔۔۔ وفي ''المعتقد المنتقد''، ص۵۸: (وأمّا رؤیاہ سبحانہ في المنام۔۔۔۔۔۔ جاءزۃ عند الجمھور، لأنّہا نوع مشاھدۃ بالقلب، ولا استحالۃ فیہ، وواقعۃ کما حکیت عن کثیر من السلف منھم أبو حنیفۃ وأحمد بن حنبل رضي اللہ تعالی عنھما، وذکر القاضي الإجماع علی أنّ رؤیتہ تعالی مناماً جاءزۃ وإن کان بوصف لا یلیق بہ تعالی)، ملتقطاً.3۔۔۔۔۔۔ ابو حنیفہ نعمان بن ثابت۔ 4۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر''، ص۱۲۴:(رؤیۃ اللہ سبحانہ وتعالی في المنام، فالأکثرون علی جوازہا من غیر کیفیۃ وجہۃ وہیئۃ أیضا في ھذا المرام، فقد نقل أنّ الإمام أبا حنیفۃ قال: رأیت رب العزۃ في المنام تسعاً وتسعین مرۃ، ثم رآہ مرۃ أخری تمام المائۃ و قصتہا طویلۃ لا یسعہا ھذا المقام).5۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر''، ص۸۳: (واللہ یری في الآخرۃ)أي: یوم القیامۃ، (ویراہ المؤمنون وہم في الجنۃ بأعین رؤوسہم بلا تشبیہ) أي: رؤیۃ مقرونۃ بتنزیہ لا مکنونۃ بتشبیہ (ولا کیفیۃ) أي: في الصورۃ (ولا کمیۃ) أي: في الہیئۃ المنظورۃ
P22
نہیں، اِن شاء اﷲ تعالیٰ جب دیکھیں گے اُس وقت بتا دیں گے۔ اس کی سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک عقل پہنچتی ہے، وہ خدا نہیں اور جو خدا ہے، اُس تک عقل رسا نہیں، اور وقتِ دیدار نگاہ اُس کا اِحاطہ کرے، یہ محال ہے۔(1) عقیدہ (۲۸): وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، کسی کو اُس پر قابو نہیں(2) اور نہ کوئی اُس کے ارادے سے اُسے باز رکھنے والا۔ (3) اُس کو نہ اُونگھ آئے نہ نیند(4)، تمام جہان کا نگاہ رکھنے والا (5)، نہ تھکے، نہ اُکتائے (6)، تمام عالم کا پالنے والا (7)،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (ولا یکون بینہ وبین خلقہ مسافۃ) أي: لا في غایۃ من القرب ولا في نہایۃ من البعد، ولا یوصف بالاتصال ولا بنعت الانفصال ولا بالحلول والاتحاد کما یقولہ الوجودیۃ المائلون إلی الاتحاد، فذات رؤیتہ ثابت بالکتاب والسنۃ إلاّ أنّہا متشابہۃ من حیث الجہۃ والکمیۃ والکیفیۃ، فنثبت ما أثبتہ النقل و ننفي عنہ ما نزّہہ العقل، کما أشار إلی ھذا المعنی قولہ تعالی:(لا تُدْرِکُہُ الأبْصَار🔚
🏁Barelvi Network Ⓜ️
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 23.24
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
الّٰله (عزوجل)ماں باپ سے زیادہ مہربان، حلم والا۔ (1) اُسی کی رحمت ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا (2)، اُسی کے لیے بڑائی اور عظمت ہے۔ (3) ماؤں کے پیٹ میں جیسی چاہے صورت بنانے والا (4)، گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، قہر و غضب فرمانے والا (5)، اُس کی پکڑ نہایت سخت ہے ، جس سے بے اُس کے چھڑائے کوئی چھوٹ نہیں سکتا۔(6) وہ چاہے تو چھوٹی چیز کو وسیع کر دے اور وسیع کو سمیٹ دے ، جس کو چاہے بلند کر دے اور جس کو چاہے پست، ذلیل کو عزت دیدے اور عزت والے کو ذلیل کر دے (7)، جس کو چاہے راہِ راست پر لائے اور جس کو چاہے سیدھی راہ سے الگ کر دے (8)، جسے چاہے اپنا نزدیک بنالے اور جسے چاہے مردود کر دے، جسے جو چاہے دے اور جو چاہے چھین لے(9)، وہ جو کچھ کرتا ہے یا کریگا عدل وانصاف ہے ، ظلم سے پاک و صاف ہے (10)،
1۔۔۔۔۔۔ (اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ) پ۱، الفاتحۃ: ۲. (إِنَّہ، کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا) پ۲۲، الفاطر: ۴۱۔ عن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ قدم علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم سبي، فإذا امرأۃ من السبي قد تحلب ثدیہا تسقي، إذا وجدت صبیا في السبي أخذتہ، فألصقتہ ببطنہا وأرضعتہ، فقال لنا النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ((أترون ہذہ طارحۃ ولدہا في النار؟)) قلنا: لا، وہي تقدر علی أن لا تطرحہ، فقال: ((لَلّٰہُ أرحم بعبادہ من ہذہ بولدہا)). ''صحیح البخاري''، کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، الحدیث: ۵۹۹۹، ج۴، ص۱۰۰.2۔۔۔۔۔۔ فقال علیہ الصلوۃ والسلام حاکیاً عنہ سبحانہ: ((أنا عند المنکسرۃ قلوبہم لأجلي)). ''التفسیر الکبیر''، ج۱، ص۴۳۰، تحت الآیۃ: ۳۴. 3۔۔۔۔۔۔ (وَہُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ) پ۳، البقرۃ: ۲۵۵. 4۔۔۔۔۔۔ (ہُوَالَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآءُ) پ۳، اٰلِ عمرٰن: ۶. 5۔۔۔۔۔۔ (غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَابِ) پ۲۴، المؤمن: ۳. 6۔۔۔۔۔۔ (اِنَّ اَخْذَہ، اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ) پ۱۲، ھود: ۱۰۲. (اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ) پ۳۰، البروج: ۱۲.7۔۔۔۔۔۔ (وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ) پ۳، اٰلِ عمرٰن: ۲۶.8۔۔۔۔۔۔ (اِنَّ اللہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآء ُ وَیَہْدِي مَن یَّشَآءُ) پ۲۲، الفاطر: ۸. (وَمَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَـہ، مِنْ ہَادٍ وَمَنْ یَّہْدِ اللہُ فَمَا لَـہ، مِنْ مُّضِلٍّ) پ۲۴، الزمر: ۳۶۔۳۷.9۔۔۔۔۔۔ (قُلِ اللّٰہُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ). پ۳، اٰل عمرٰن: ۲۶.J۔۔۔۔۔۔ (إِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ) پ۵، النسآء
P24
نہایت بلند و بالا ہے (1)، وہ سب کو محیط ہے(2) اُس کا کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا(3)، نفع و ضرر اُسی کے ہاتھ میں ہیں(4)، مظلوم کی فریاد کو پہنچتا(5) اور ظالم سے بدلا لیتا ہے(6)، اُس کی مشیت اور اِرادہ کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا (7)، مگر اچھے پر خوش ہوتا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (إِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّلٰـکِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ) پ۱۱، یونس: ۴۴. (وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ) پ۲۶، ق:۲۹. في''تفسیر الطبري''، ج۱۱،ص۴۲۵، تحت الآیۃ: (قولہ: (وَمَا أَنَا بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیدِ) یقول: ولا أنا بمعاقب أحدًا من خلقي بجرم غیرہ، ولاحامل علی أحد منھم ذنب غیرہ فمعذّبہ بہ)۔1۔۔۔۔۔۔ (وَہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ) پ۲۲، سبأ: ۲۳.2۔۔۔۔۔۔ (أَلَا إِنَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ مُحِیطٌ) پ۲۵، حمۤ السجدۃ: ۵۴.3۔۔۔۔۔۔ (لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْأَبْصَارَ) پ۷، الانعام: ۱۰۳. 4۔۔۔۔۔۔ (وَإِنْ یَّمْسَسْکَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗ إِلاَّ ہُوَ وَإِنْ یَمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ) پ۷، الأنعام: ۱۷. ( وَإِنْ یَّمْسَسْکَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَـہ، إِلاَّ ہُوَ وَإِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِہٖ) پ۱۰، یونس: ۱۰۷.5۔۔۔۔۔۔ وفي ''سنن الترمذي''، أحادیث شتی، باب فی العفو والعافیۃ، ج۵، ص ۳۴۳، الحدیث: ۳۶۰۹: عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((ثلاثۃ لا ترد دعوتہم الصائم حتی یفطر والإمام العادل ودعوۃ المظلوم یرفعہا اللہ فوق الغمام ویفتح لہا أبواب السماء ویقول الرب: وعزتی لأنصرنک ولو بعد حین))۔ و''سنن ابن ماجہ''، کتاب الصیام، باب: فی: الصائم لا تردّ دعوتہ، ج ۲، ص۳۴۹🔚
🏁Barelvi Network Ⓜ️
🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 25.26
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
اور بُرے سے ناراض، اُس کی رحمت ہے کہ ایسے کام کا حکم نہیں فرماتا جو طاقت سے باہر ہے۔ (1) اﷲ عزوجل پر ثواب یا عذاب یا بندے کے ساتھ لطف یا اُس کے ساتھ وہ کرنا جو اُس کے حق میں بہتر ہو اُس پر کچھ واجب نہیں۔ مالک علی الاطلاق ہے، جو چاہے کرے اور جو چاہے حکم دے(2)، ہاں! اُس نے اپنے کرم سے وعدہ فرما لیا ہے کہ مسلمانوں کوجنت میں داخل فرمائے گا اور بمقتضائے عدل کفّار کو جہنم میں (3)، اور اُس کے وعدہ و وعید بدلتے نہیں (4)، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــیَفْعَلُ مَا یَشَاءُ) [الحج: ۱۸]، وقال عزوجل: (وَمَنْ یُّرِدْ أَنْ یُّضِلَّہ، یَجْعَلْ صَدْرَہُ ضَیِّقًا حَرَجًا) [الأنعام: ۱۲۵]). انظر للتفصیل : ''التفسیر الکبیر''،ج۲، ص۵۲۹، تحت الآیۃ: ۲۵۳: (احتج القائلون بأن کل الحوادث بقضاء اللہ وقدرہ.... إلخ). وفي ''المسامرۃ'' بشرح ''المسایرۃ''، ص۱۳۰: (أنّ فعل العبد وإن کان کسباً لہ فہو) واقع (بمشیئۃ اللہ) تعالی (وإرادتہ). وفي''منح الروض الأزہر''، ص۴۱: (ولا یکون في الدنیا ولا في الآخرۃ شيء إلاّ بمشیئتہ) أي: مقروناً بإرادتہ. 1۔۔۔۔۔۔ (لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَہَا) پ۳، البقرۃ: ۲۸۶.2۔۔۔۔۔۔ في ''الحدیقۃ الندیۃ'' شرح ''الطریقۃ المحمدیۃ''، ج۱، ص۲۴۹: (ولا یجب) أي: لا یلزم (علیہ) تعالی (شيئ) لغیرہ سبحانہ من ثواب أو عقاب أو فعل صلاح أو أصلح أو فساد أو أفسد بل ہو الفاعل العدل المختار، ویخلق اللہ ما یشاء ویختار، وفي ''شرح الطوالع'' للإصفہاني: وأمّا أصحابنا فقالوا: الثواب علی الطاعۃ فضل من اللہ تعالی والعقاب علی المعصیۃ عدل منہ تعالی، وعمل الطاعۃ دلیل علی حصول الثواب وفعل المعصیۃ علامۃ العقاب، ولا یکون الثواب علی الطاعۃ واجباً علی اللہ تعالی ولا العقاب علی المعصیۃ؛ لأنّہ لا یجب علی اللہ شيئ، وکلّ میسر لما خلق لہ فالمطیع موفق میسر لما خلق لہ وہو الطاعۃ، والعاصي میسر لما خلق لہ وہوالمعصیۃ ولیس للعبد في ذلک تأثیر). 3۔۔۔۔۔۔ (فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ) پ۳۰، البروج: ۱۶. في''حاشیۃ الصاوي''، پ۳۰، البروج:تحت الآیۃ: ۱۶(قولہ: (فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ) أتی بصیغۃ (فَعَّالٌ) إشارۃ للکثرۃ، والمعنی: یفعل ما یرید، ولا یعترض علیہ ولا یغلبہ غالب، فیدخل أولیاء الجنۃ لا یمنعہ مانع، ویدخل أعداء ہ النار لا ینصرہم منہ ناصر، وفي ہذہ الآیۃ دلیل علی أنّ جمیع أفعال العباد مخلوقۃ للہ تعالی، ولا یجب علیہ شيئ، لأنّ أفعالہ بحسب إرادتہ). ج۶، ص۲۳۴۲.4۔۔۔۔۔۔ ( لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللہِ) پ۱۱، یونس: ۶۴. (مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ) پ۲۶، ق: ۲۹. في ''تفسیر روح البیان''، پ۲۶، ق: ۲۹، ج۹، ص۱۲۵، تحت الآیۃ: ((مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ) أي: لا یغیر قولي في الوعد والوعید). وفي ''تفسیر ابن کثیر''، پ۱۱، یونس، تحت الآیۃ:۶۴: (قولہ: (لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللہِ) أي: ھذا الوعد لا یبدل ولا یخلف ولا یغیر بل ہو مقرر مثبت کائن لا محالۃ). ج۴، ص۲۴۵. =
P26
اُس نے وعدہ فرمالیا ہے کہ کفر کے سوا ہر چھوٹے بڑے گناہ کو جسے چاہے معاف فرمادے گا۔(1) عقیدہ (۲۹): اُس کے ہر فعل میں کثیر حکمتیں ہیں، خواہ ہم کو معلوم ہوں یا نہ ہوں اور اُس کے فعل کے لیے غرض نہیں، کہ غرض اُس فائدہ کو کہتے ہیں جو فاعل کی طرف رجوع کرے، نہ اُس کے فعل کے لیے غایت، کہ غایت کا حاصل بھی وہی غرض ہے اور نہ اُس کے افعال علّت و سبب کے محتاج، اُس نے اپنی حکمتِ بالغہ کے مطابق عالَمِ اسباب میں مسبّبات کو اسباب سے ربط فرمادیا ہے(2)، آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتا ہے، آ گ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے، وہ چاہے تو آنکھ سُنے، کان دیکھے، پانی جلائے، آگ پیاس بجھائے، نہ چاہے تو لاکھ آنکھیں ہوں دن کو پہاڑ نہ سُوجھے، کروڑآگیں ہوں ایک تنکے پر داغ نہ آئے۔ (3) کس قہر کی آگ تھی جس میں ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو کافروں نے ڈالا...! کوئی پاس نہ جا سکتا تھا، گوپھن میں رکھ کر پھینکا، جب آگ کے مقابل پہنچے، جبریلِ امین علیہ الصلاۃ والسلام حاضر ہوئے اور عرض کی: ابراہیم کچھ حاجت ہے؟ فرمایا: ہے مگر نہ تم سے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
= وفي ''تفسیر الطبري''، تحت الآیۃ: ۶۴: (وأمّا قولہ: (لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللہِ)، فإنّ معناہ: أنّ اللہ تعالی لا خُلف لوعدہ، ولا تغییر لقولہ🔚
🏁Barelvi Network Ⓜ️
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
📚Darse Bahare Shariat
❇️Topic: Aqaid e Zaat Wa Sifaat e Bari Taala
📗Part: 1
📖Page: 27.
🎁Peshkash: Qadri Kitaab
Ghar Bareilly Sharif
🖋 Written BY: Muhammad Mahil Razvi Markazi
👑٧٨٦/٩٢👑
عرض کی: پھر اُسی سے کہیے جس سے حاجت ہے، فرمایا:
''عِلْمُہٗ بِحَالِيْ کَفَانِي عَنْ سُؤَالِيْ''.(1)
اظہارِ احتیاج خود آنجاچہ حاجت ست۔ (2) ارشاد ہوا:
(یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾ ) ـ3ـ
''اے آگ! ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا ابراہیم پر۔'' اس ارشاد کو سُن کر روئے زمین پر جتنی آگیں تھیں سب ٹھنڈی ہوگئیں کہ شاید مجھی سے فرمایا جاتا ہو(4) اور یہ تو ایسی ٹھنڈی ہوئی کہ علما فرماتے ہیں کہ اگر اس کے ساتھ (وَسَلٰمًا) کا لفظ نہ فرما دیا جاتا کہ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا تو اتنی ٹھنڈی ہو جاتی کہ اُس کی ٹھنڈک ایذا دیتی۔(5)
1۔۔۔۔۔۔ ''ملفوظات ''، حصہ ۴، ص ۴۶۲ ۔ یعنی: اس کا میرے حال کو جاننا یہی مجھے کفایت کرتا ہے میرے سوال کرنے سے ۔2۔۔۔۔۔۔ اپنی حاجت کے اِظہار کی وہاں کیا حاجت ہے! 3۔۔۔۔۔۔ پ۱۷، الأنبیآء : ۶۹. 4۔۔۔۔۔۔ في ''التفسیر الکبیر''، پ۱۷، الأنبیاء، ج۸، ص۱۵۸، تحت الآیۃ: ۶۹: (أمّا کیفیۃ القصۃ فقال مقاتل: لما اجتمع نمروذ وقومہ لإحراق إبراہیم حبسوہ في بیت وبنوا بنیاناً کالحظیرۃ ، وذلک قولہ: (قَالُوْا ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَانًا فَأَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ)، ثم جمعوا لہ الحطب الکثیر حتی إئنّ المرأۃ لو مرضت قالت: إن عافاني اللہ لأجعلن حطباً لإبراہیم، ونقلوا لہ الحطب علی الدواب أربعین یوماً، فلما اشتعلت النار اشتدت وصار الہواء بحیث لو مر الطیر في أقصی الہواء لاحترق، ثم أخذوا إبراہیم علیہ السلام ورفعوہ علی رأس البنیان وقیدوہ، ثم اتخذوا منجنیقاً ووضعوہ فیہ مقیداً مغلولاً، فصاحت السماء والأرض ومن فیہا من الملائکۃ إلاّ الثقلین صیحۃ واحدۃ۔۔۔۔۔۔، فلمّا أرادوا إلقاء ہ في النار۔۔۔۔۔۔، وضعوہ في المنجنیق ورموا بہ النار، فأتاہ جبریل علیہ السلام وقال: یا إبراہیم ھل لک حاجۃ، قال: أما إلیک فلا؟ قال: فاسأل ربک، قال: حسبي من سؤالي، علمہ بحالي، فقال اللہ تعالی: (یٰـنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلَی إِبْرَاہِیْمَ)۔۔۔۔۔۔ قال: ولم یبق یومئذ في الدنیا نار إلاّ طفئت)، ملتقطاً.5۔۔۔۔۔۔ في ''تفسیر ابن کثیر''، پ۱۷، الأنبیآء، ج۵، ص۳۰۹، تحت الآیۃ:۶۹،(قال ابن عباس، وأبو العالیۃ: لولا أنّ اللہ عزوجل قال: (وَّسَلٰمًا) لآذی إبراہیمَ بَرْدُہا).🔚
🏁Barelvi Network Ⓜ️